[ریکارڈز] ہدف کا تیز ترین تعاقب، پاکستان کا نیا ریکارڈ
شارجہ کا میدان ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ کے سنسنی خیز ترین لمحے کا گواہ رہا ہے۔ اپریل 1986ء میں آسٹریلیشیا کپ کا فائنل اور پاکستان کے جاوید میانداد کا آخری گیند پر بھارت کے چیتن شرما کو چھکا کس کرکٹ شائق کو یاد نہ ہوگا لیکن شارجہ کرکٹ ایسوسی ایشن اسٹیڈیم اب ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے بہترین لمحات میں سے ایک کا شاہد بھی بن چکا ہے۔
پاکستان نے یہاں سری لنکا کے خلاف کھیلے گئے سیریز کے تیسرے و آخری ٹیسٹ میں جب 302 رنز کا ہدف آخری لمحات میں حاصل کیا تو یہ قومی تاریخ کا محض دوسرا موقع تھا کہ پاکستان نے 300 رنز سے زیادہ کا ہدف کامیابی سے حاصل کیا ہو۔ اس سے قبل واحد موقع 1994ء میں آیا تھا جب پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں 314 رنز کا ہدف کامیابی سے حاصل کیا تھا۔ کیا ہی یادگار مقابلہ تھا وہ۔ پاکستان ہدف کے تعاقب میں 258 رنز 9 وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا یعنی ابھی فتح سے 56 رنز دور تھا، لیکن انضمام الحق اور مشتاق احمد نے آخری وکٹ پر 57 رنز بنا کر یادگار فتح سمیٹی۔ آخری رنز کچھ اس طرح بنے کا انضمام الحق شین وارن کو آگے بڑھ کر کھیلنے میں ناکام رہے اور وکٹوں کے پیچھے کھڑے این ہیلی بھی اس گیند کو نہ پکڑ پائے۔ یوں اسٹمپ کا موقع ضایع ہوتے ہی میچ اور سیریز کا فیصلہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ پاکستان کبھی 300 رنز سے زیادہ کے ہدف کے تعاقب میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔
بحیثیت مجموعی کرکٹ تاریخ میں کل 27 مواقع ایسے ہیں جب کسی ٹیم نے 300 یا اس سے زیادہ رنز کا ہدف حاصل کیا ہو۔ ان میں سے ایک تہائی مقابلے آسٹریلیا نے جیتے ہیں، یعنی اس نے 9 مرتبہ 300 سے زیادہ کا ہدف عبور کیا۔ جن میں سب سے بڑا ہدف 418 رنز ہے جو ویسٹ اندیز نے 2003ء میں آسٹریلیا کے خلاف سینٹ جانز، اینٹیگا میں 7 وکٹوں پر حاصل کیا تھا۔
پاک-لنکا شارجہ ٹیسٹ ان تمام مقابلوں پر اس لیے سبقت رکھتا ہے کیونکہ اس میں رنز بنانے کی رفتار سب سے زیادہ تھی۔ پاکستان نے 302 رنز کا ہدف محض 57.3 اوورز میں حاصل کیا یعنی 5.25 رنز فی اوور کے اوسط سے رنز بنائے جو ایک نیا عالمی ریکارڈ ہے۔
اس سے قبل فتح میں فی اوور سب سے زیادہ رنز بنانے کے اوسط کا ریکارڈ ویسٹ انڈیز کے پاس تھا جس نے 1984ء میں انگلستان کے خلاف لارڈز کے مقام پر 5.19 کے شاندار اوسط سے اور صرف ایک وکٹ کے نقصان پر 344 رنز کا مجموعہ حاصل کرکے تاریخی فتح حاصل کی تھی۔
ٹیسٹ کرکٹ میں 300+ کا تیز ترین تعاقب
فاتح ٹیم | اسکور | اوورز | فی اوور رنز اوسط | بمقابلہ | بمقام | بتاریخ |
---|---|---|---|---|---|---|
پاکستان | 302/5 | 57.3 | 5.25 | سری لنکا | شارجہ | جنوری 2014ء |
ویسٹ انڈیز | 344/1 | 66.1 | 5.19 | انگلستان | لارڈز | جون 1984ء |
انگلستان | 315/4 | 73.2 | 4.29 | آسٹریلیا | لیڈز | اگست 2001ء |
آسٹریلیا | 334/6 | 79.1 | 4.21 | جنوبی افریقہ | کیپ ٹاؤن | مارچ 2002ء |
بھارت | 387/4 | 98.3 | 3.92 | انگلستان | چنئی | دسمبر 2008ء |
ویسے کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ 4 دنوں تک انتہائی سست روی سے آگے بڑھنے والا میچ اتنے شاندار مقابلے کے بعد اختتام پذیر ہوگا۔ اس معرکہ آرائی کا تمام تر سہرا پاکستان کے باؤلرز اور پھر بلے بازوں کی کارکردگی کو جاتا ہے۔ پاکستان کے باؤلرز نے محض 25 رنز کے اضافے پر سری لنکا کی آخری 5 وکٹیں سمیٹیں اور اس کے بعد پاکستان کے بلے بازوں بالخصوص اظہر علی، مصباح الحق اور سرفراز احمد نے اپنا کمال دکھایا۔
بلاشبہ یہ مقابلہ پاک-آسٹریلیا کراچی ٹیسٹ 1994ء کی طرح مدتوں پاکستان کے شائقین کے ذہنوں میں تازہ رہے گا اور شارجہ والے تو جاوید میانداد کے چھکے کی طرح ہمیشہ یاد رکھیں گے۔