بھارت نیوزی لینڈ سے بھی ہار گیا، بیرون ملک شکستوں کا سلسلہ دراز
بھارت کو دورۂ نیوزی لینڈ میں بھی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور چوتھے ون ڈے مقابلے میں شکست کے ساتھ ہی تین-صفر کے واضح مارجن سے سیریز گنوا بیٹھا ہے۔
2013ء کے وسط میں جب بھارت نے ناقابل یقین انداز میں چیمپئنز ٹرافی کا فائنل جیتا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ عالمی کپ کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد کارکردگی میں آنے والا زوال عارضی تھا اور بھارت ایک روزہ کرکٹ میں پھر بلندیوں کی جانب محو پرواز ہے لیکن یہ سب خوش فہمیاں اب تک کے نتائج سے دور ہوچکی ہیں۔ دورۂ جنوبی افریقہ میں بھاری بھرکم شکست کے بعد اب یہاں نیوزی لینڈ میں چار مقابلوں کے بعد بھی وہ فتح سے محروم ہے، تین مقابلوں میں شکست کے ساتھ سیریز بھی گنوا بیٹھا ہے اور ایک مقابلہ گرفت میں آنے کے باوجود جیت نہ پایا۔
دوسری جانب نیوزی لینڈ دورۂ بنگلہ دیش میں کلین سویپ کی مایوس کن شکست کے بعد بہت عمدگی سے واپس آیا ہے اور اپنے گھریلو میدانوں پر ویسٹ انڈیز کو واضح شکست دینے کے بعد عالمی نمبر ایک کو زیر کرنا اس کے لیے بہت بڑا کارنامہ ہے۔
ہملٹن میں کھیلے گئے سیریز کے چوتھا ایک روزہ مقابلہ بھارت کے لیے جیتنا لازمی تھا، تاکہ وہ سیریز برابر کرنے کے بعد آخری مقابلے میں پوری جان لڑا دے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے کارکردگی نہ دکھانے والے سریش رینا اور شیکھر دھاون کو باہر بٹھا کر ان کی جگہ اجنکیا راہانے اور امبیتی رائیڈو کو جگہ دی لیکن یہ دونوں بھی کوئی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھ پائے بلکہ اوپنر کی حیثیت سے بھیجے گئے ویراٹ کوہلی بھی دو رنز بنانے کے بعد منہ لٹکائے میدان سے لوٹ آئے۔
سرفہرست چار کھلاڑیوں میں واحد کارکردگی روہیت شرما نے دکھائی، جنہوں نے قسمت اور بلے کے ذریعے 79 رنز بنائے۔ لیکن دوسرے اینڈ سے اچھا ساتھ نہ ملنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت بیٹنگ پاور پلے کے آغاز سے قبل ہی محض 151 رنز پر اپنی آدھی ٹیم گنوا چکا تھا۔
اس مرحلے پر کپتان مہندر سنگھ دھونی اور ساتھی کھلاڑی رویندر جدیجا نے 127 رنز کی شاندار شراکت داری قائم کی اور بھارت کو ایک ایسے مجموعے تک پہنچایا، جس کے دفاع کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ دونوں نے ایک مرتبہ وکٹ کا مزاج سمجھنے کے بعد نیوزی لینڈ ہی باؤلرز کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور آخری 10 اوورز میں 100 رنز لوٹے۔
آخری گیند پر چھکے کے ساتھ جب بھارت کی اننگز اپنے اختتام پر پہنچی تو اسکور بورڈ پر 278 رنز موجود تھے جو سیڈن پارک کی دھیمی وکٹ کو دیکھتے ہوئے ایک اچھا مجموعہ کہا جا سکتا تھا۔ دھونی 73 گیندوں پر 79 جبکہ جدیجا 54 گیندوں پر 62 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔
نیوزی لینڈ کے باؤلرز گوکہ آخری 17 اوورز میں کوئی وکٹ حاصل نہ کرسکے لیکن سیریز میں دو-صفر کی ناقابل شکست برتری نے میزبان کو اعتماد دیا کہ وہ ٹیم کے انتخاب میں تجربے کرے۔ نیوزی لینڈ نے جارح مزاج آل راؤنڈر کوری اینڈرسن کی جگہ جیمز نیشام کو کھلایا جبکہ ابتدائی مقابلوں میں بھارتی بلے بازوں کو پریشانی میں مبتلا کرنے والے باؤلر مچل میک کلیناہن کی جگہ کائل ملز کو موقع دیا گیا۔ کائل ملز نے تو بہت ہی عمدہ باؤلنگ کروائی، بالخصوص حتمی اوورز میں جب ان کے ساتھی گیندباز دھونی اور جدیجا کے رحم و کرم پر تھے، انہوں نے چار اوورز میں 29 رنز ہی دیے جبکہ اسی مرحلے پر دوسرے اینڈ سے پھینکے گئے چار اوورز میں 51 رنز لوٹے گئے۔ وکٹوں کے معاملے میں ٹم ساؤتھی سب سے آگے رہے جنہوں نے ویراٹ کوہلی سمیت بھارت کے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ ایک، ایک وکٹ کائل ملز، ہمیش بینیٹ اور کین ولیم سن کو ملی۔
279 رنز کے ہدف کے تعاقب میں نیوزی لینڈ کو جیسی رائیڈر اور مارٹن گپٹل نے 54 رنز کابہترین آغاز فراہم کیا۔ دونوں کا آغاز ہی بہت جارحانہ تھا اور ابتدائی 7 اوورز میں 54 رنز جڑنے کے بعد مسلسل دو اوورز میں اوپنرز کا آؤٹ ہونا نیوزی لینڈ کو پریشان کرگیا۔ البتہ کین ولیم سن اور روز ٹیلر کی ذمہ دارانہ بیٹنگ، اور اگلے 26 اوورز تک بھارت کو وکٹ سے محروم رکھنے اور 130 رنز کے اضافے نے مقابلے کو بھارت کی گرفت سے کہیں دور کردیا۔ اگر جدیجا کی براہ راست تھرو ولیم سن کی اننگز کا خاتمہ نہ کرتی تو شاید یہ رفاقت مزید آگے جاتی۔ ولیم سن 82 گیندوں پر دو چھکوں اور دو چوکوں کے ساتھ 60 رنز بنا کر واپس آئے۔ یہ چار ون ڈے مقابلوں میں ان کی چوتھی نصف سںچری تھی جس سے ان کی مستقل مزاجی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اب دوسرے اینڈ سے روز ٹیلر کا ساتھ دینے کے لیے کپتان برینڈن میک کولم آئے جبکہ نیوزی لینڈ اب بھی فتح سے 91 رنز کے فاصلے پر تھا لیکن دونوں نے ٹیم کو مزید کسی مشکل مرحلے سے دوچار نہ ہونے دیا اور 49 ویں اوور میں ہدف کو جا لیا۔
میک کولم محض 36 گیندوں پر تین شاندار چھکوں اور 4 چوکوں کی مدد سے 49 رنز جبکہ ٹیلر 127 گیندوں پر 112 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔ ٹیلر کی کیریئر کی نویں سنچری اننگز میں 15 چوکے شامل تھے ۔ انہيں اس کارکردگی پر میچ کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا۔
یہ گزشتہ پانچ سالوں میں کسی قابل ذکر حریف کے خلاف نیوزی لینڈ کی گھریلو میدانوں پر پہلی ایک روزہ سیریز جیت ہے، اور بہت خاص بھی، اس لیے کیونکہ یہ عالمی نمبر ایک بھارت کے خلاف تھی، جس کو اب تک سیریز میں کوئی مقابلہ جیتنے کو نہیں مل سکا۔
دونوں ٹیمیں اب 31 جنوری کو ویلنگٹن میں پانچواں و آخری ون ڈے کھیلیں گی جہاں بھارت کے پاس آخری موقع ہوگا کہ وہ کم از کم ایک ون ڈے تو جیت لے۔