سرزمین پاک پر پاکستان کی پہلی فتح

2 1,081

فضل محمود کی انگلستان میں شاندار کارکردگی نے انہیں 'اوول کے ہیرو' کا خطاب دیا، دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والی نئی ریاست پاکستان تو اب تک سمت کے تعین میں بھٹک رہی تھی لیکن پاکستان کرکٹ صحیح سمت میں رواں دواں تھی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں کرکٹ کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا تھا اور انگلستان کے کامیاب دورے سے واپس آتے ہی پاکستانی کرکٹ بورڈ (اس وقت بی سی سی پی) نے روایتی حریف بھارت کا پاکستان کے جوابی دورے کی دعوت دے ڈالی اور پانچ ٹیسٹ مقابلوں کی سیریز کھیلنے پر اتفاق ہوا۔ س طرح پاکستان نے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کے لیے اولین میزبان اور مہمان دونوں کی حیثیت سے بھارت ہی کے انتخاب کو ترجیح دی۔ یہ بھارت اور پاکستان کے کرکٹ بورڈز کے درمیان اچھے روابط کا آغاز تھا جو 90ء کی دہائی کے آخر تک قائم رہا۔

ذوالفقار احمد نے اپنی آف اسپن باؤلنگ کی بدولت مقابلے میں 11 وکٹوں کی فاتحانہ کارکردگی دکھائی (تصویر: Getty Images)

پاک-بھارت سیریز کے قابل ذکر واقعات میں "لٹل ماسٹر" حنیف محمد کی بہاولپور میں ٹیسٹ کیریئر کی اولین سنچری، نذر محمد کی جگہ دورۂ برطانیہ پر جانے وال ےعلیم الدین کی پہلی ٹیسٹ سنچری، جارح مزاج بلے باز مقصود احمد کا 99 رنز پر آؤٹ ہونا اور پاکستان کرکٹ کے 'گاڈ فادر' عبد الحفیظ کاردار کی کیریئر بیسٹ 93 رنز کی اننگز شامل ہیں۔ سیریز میں فضل محمود، خان محمد اور محمود حسین نے گیندبازی میں بخوبی ذمہ داریاں نبھائیں لیکن پاک-بھارت سیریز کا کوئی مقابلہ نتیجہ خیز نہ بن سکا۔ دونوں ملکوں کے بلے بازوں کا حد سے زیادہ محتاط رویہ سیریز کو نتیجہ خیز نہ بنا سکا۔ یوں پاکستان ایک پوری سیریز کے بعد بھی اپنے وطن میں فتح سے محروم رہا اور یہ لمحہ اسی سال آیا جب نیوزی لینڈ پاکستان کے دورے پر پہنچا۔

پاکستان نے بھارت کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے خاتمے کے ساتھ ہی نیوزی لینڈ کو دورے کی دعوت دے ڈالی اور اس سیریزکے اختتام کے سات ماہ بعد نیوزی لینڈ کی ٹیم ہیری کیو کی قیادت میں تین ٹیسٹ مقابلے کھیلنے کے لیے سرزمین پاک پہنچی جہاں 13 اکتوبر 1955ء کو کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں پہلا ٹیسٹ شروع ہوا۔ نیوزی لینڈ نے ٹاس جیتا اور بلے بازی کے لیے سازگار سست وکٹ دیکھ کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ کیویز کپتان کا فیصلہ اس حد تک تو درست ثابت ہوا کہ اس وکٹ پر فضل محمود اور خان محمود کی باؤلنگ بے اثر ثابت ہوئی لیکن اس کے باوجود پاکستان نے نپی تلی باؤلنگ کے ذریعے نیوزی لینڈ کے بلے بازوں کو نتھ ڈالی رکھی اور انہیں کھل کر رنز بنانے کے مواقع نہیں دیے۔ دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور مہمان بیٹسمین سست روی سے بلے بازی کرنے لگے۔ لیکن آف اسپنر ذوالفقار احمد اور کپتان عبد الحفیظ کاردار وقفے وقفے سے انہیں غلطیوں پر مجبور کرتے رہے، جس کا خمیازہ انہیں وکٹوں کی صورت میں اٹھانا پڑا۔ نیوزی لینڈ کی پوری ٹیم 133.2 اوورز میں محض 164 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔

پاکستان کی پہلی اننگز کا آغاز حنیف محمد اور علیم الدین نے کیا اور ابھی مجموعہ نصف سنچری تک بھی نہ پہنچا تھا کہ تین مستند بلے باز پویلین میں تماشائی بن چکے تھے۔ پھر پاکستان بھی وقفے وقفے سے ویسے ہی وکٹیں گنواتا رہا جیسا کہ نیوزی لینڈ نے گنوائی تھیں اور 144 رنز تک پہنچتے پہنچتے تو چھ مستند بلے بازوں سے محروم ہوگیا یعنی ابھی نیوزی لینڈ کی پہلی اننگز میں 20 رنز کی برتری قائم تھی۔ اس مشکل مقام پر وزیر محمد نے ذمہ داری سنبھالی اور شجاع الدین نے ان کے ساتھ دینے کے لیے لبیک کہا۔ دونوں نے دوسرے دن کے اختتام تک اسکور کو 178 تک پہنچایا اور تیسرے دن بھی رنز بننے کے سلسلے کو ٹوٹنے نہ دیا اور اضافہ کرتے کرتے اسے 222 تک پہنچا دیا۔ اس مقام پر شجاع الدین 47 کے انفرادی اسکور پر کلین بولڈ ہوئے لیکن وہ اپنی ذمہ داری باحسن و خوبی انجام دے چکے تھے۔ وزیر محمدکے ساتھ ساتویں وکٹ پر 78 رنز کی شراکت داری نے پاکستان کو58 رنز کی برتری دلا دی تھی۔ کچھ ہی دیر میں وزیر محمد بھی 43 رنز بنانے کے بعد میدان سے لوٹ آئے۔ ان دونوں بلے بازوں کی روانگی کے بعد آخری تین بلے بازوں ذوالفقار احمد، فضل محمود اور خان محمد نے اسکور میں مزید 49 رنز کا اضافہ کیا اور پاکستان کی پہلی اننگز 289 رنز پر مکمل ہوئی یعنی پہلی اننگز میں 125 رنز کی برتری۔

تیسرے دن دوپہر نیوزی لینڈ کے بلےباز دوسری اننگز کے آغاز کے لیے میدان میں اترے تو ان کے سامنے پہلی 'چنوتی' 125 رنز کے ہندسے کو پار کرنا تھا۔ گو کہ پاکستان کو فضل محمود کے پہلی اننگز میں زخمی ہوجانے کا نقصان اٹھانا پڑا تھا لیکن کپتان کو اس لیے زیادہ فکر نہ تھی کہ وکٹ پہلے ہی دن سے اسپن باؤلنگ کے لیے سازگار تھی اور اب تک تقریباً تین دن کا کھیل ہوچکا تھا۔ اس لیے ذوالفقار احمد کا دوسری اننگز میں زیادہ بہتر استعمال کیا جا سکتا تھا اور خود نیوزی لینڈ کو بھی اس خطرے کا بخوبی احساس تھا۔ اسی کے پیش نظر تجربہ کار افتتاحی بلے باز برٹ سوٹکلف نے گورڈن لیگاٹ کے ساتھ مل کر انتہائی محتاط انداز میں دوسری اننگز کی شروعات کی بالخصوص ذوالفقار احمد کے مقابلے میں بہت ہی دفاعی انداز اپنایا گیا۔

ذوالفقار احمد کے ساتھ اس موقع پرگیندبازی کی ذمہ داریاں کپتان کاردار اور شجاع الدین نے نبھائی اور تینوں نے حریف بلے بازوں پر زبردست دباؤ قائم کیا یہاں تک کہ 27 کے مجموعے پر سوٹکلف کے دفاع کا بندھن ٹوٹ گیا اور وہ شجاع الدین کی گیند پر کلین بولڈ ہوگئے۔ ابھی وہ پویلین پہنچ کر پیڈز ہی اتار رہے ہوں گے کہ شجاع نے ان کی جگہ لینے والے میٹ پورےکا کام بھی تمام کردیا۔ پھر اسی اوور میں شجاع نے نوئل میک گریگر کو وکٹوں کے سامنے پھانس کے کیویز کے ڈریسنگ روم میں ہلچل مچا دی۔ 27 رنز پر بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے کھیلنے والا نیوزی لینڈ اسی مجموعے پر اپنے تین اہم بلے بازوں سے محروم ہوچکا تھا۔ تیسرے دن کے اختتام سے قبل زخم خوردہ نیوزی لینڈ کو ایک اور وکٹ دینا پڑی، جو ذوالفقار احمد کے حصے میں آئی اور دن کا اختتام محض 79 رنز پر 4 وکٹوں کے ساتھ کیا۔

ایک دن کے آرام کے بعد 17 اکتوبر 1955ء کو مقابلے کا دوبارہ آغاز ہوا۔ اب نیوزی لینڈ کے سامنے پہلا ہدف اننگز کی شکست کی شرمندگی سے بچنا تھا لیکن وہ ایک رن کا بھی اضافہ نہ کر پایا کہ گورڈن لیگاٹ ذوالفقار احمد کا دوسرا شکار بن گئے۔ 39 رنز بنانے کے بعد وہ پویلین لوٹے اور یوں آدھی ٹیم تہرے ہندسے سے قبل آؤٹ ہو چکی تھی۔

نیوزی لینڈ کی بدقسمتی یہ تھی کہ یہ ٹیسٹ پاکستان کرکٹ تاریخ میں ذوالفقار احمد کی شاندار کارکردگی کے نام لکھا جاچکا تھا۔ انہوں نے کیوی کپتان کو متبادل فیلڈر کےہاتھوں کیچ کراکر اننگز کا تیسرا شکار درج کرایا اور محض 9رنز کے مزید اضافے کے بعد زن ہیرس کا رن آؤٹ نیوزی لینڈ کے لیے دوسرا بڑا دھچکا تھا اور جو فیصلہ کن بھی ثابت ہوا۔ 118 رنز تک سات وکٹیں گنوانے کے بعد نیوزی لینڈ اننگز کی شکست سے 8 رنز کے فاصلے پر تھا لیکن ذوالفقار نے انہیں اس ہزیمت سے بھی نہ بچنے دیا اور صرف چھ رنز کے اضافے پر باقی تین وکٹوں پر جھاڑو پھیر دی۔ نیوزی لینڈ محض 124 رنز پر آل آؤٹ ہو گیا اور یوں پاکستان نے اپنی ہی سرزمین پر اولین ٹیسٹ جیتا اور وہ بھی اننگز کے بھاری مارجن سے۔

ذوالفقار احمد نے دوسری اننگز میں 46.3 اوورز پھینکے اور صرف 42 رنز دے کر 6 بلے بازوں کو آؤٹ کیا اور یوں وہ پاکستان کے لیے میچ میں 10 یا زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلرز کی فہرست میں اپنا نام درج کروایا۔

کراچی اس کے بعد پاکستان کا ایسا قلعہ بنا کہ اگلے 46 سالوں تک دنیا کی کوئی ٹیم پاکستان کو نیشنل اسٹیڈیم میں شکست نہ دے سکی یہاں تک کہ 2000ء میں انگلستان نے ایک ناقابل یقین مقابلے کے بعد کراچی کو حاصل یہ اعزاز چھین لیا۔