عالمی کرکٹ کا تبدیل ہوتا منظرنامہ، پاکستان کیا کرے؟

6 1,143

یہ بات تو ماہرین کرکٹ پر کافی پہلے سے واضح تھی کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے انتظامی ڈھانچے کو ازسرنو ترتیب دینے اور اس کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ٹورنامنٹس سے نشریاتی حقوق اور اشتہارات کی مد میں حاصل ہونے والے پیسے کو اراکین میں تقسیم کرنے کے طریقے کو تبدیل کرنے کی سفارشات کی منظوری پہلے سے طے شدہ معاملہ ہے۔ جو طے ہونا باقی ہے وہ صرف یہ کہ "بگ تھری" نامی شیر نے شکار کا بڑا حصہ اپنے نام کرنےکا فیصلہ کرلیا ہے تو اس کی کچھار سے چھوٹے ممالک کیسے اور کتنا حصہ اپنے لیے نکالتے ہیں۔

کرکٹ بورڈز کاروباری ادارے ہوتے ہیں، پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی اپنا کاروباری مفاد مقدم رکھنا ہوگا (تصویر: AP)
کرکٹ بورڈز کاروباری ادارے ہوتے ہیں، پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی اپنا کاروباری مفاد مقدم رکھنا ہوگا (تصویر: AP)

بھارتی کرکٹ بورڈ کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اخلاقی پیمانے پر اس کے مطالبات درست ہیں یا غلط، کیونکہ وہ مکمل طور پر کاروباری روپ دھار چکا ہے اور اس رو سے اس کے مطالبات جائز ہیں بلکہ پورے معاملے کا تعلق ہی آئی سی سی کے کاروبار سے ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آئی سی سی کے تمام رکن ممالک جب اپنے اپنے بجٹ بناتے ہیں تو اس میں آمدنی کا ایک بہت بڑا تناسب بھارت ہی کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ یہ کاروباری حقیقت بی سی سی آئی خوب جانتا اور سمجھتا ہے، اس لیے اس کے سامنے اخلاقی جواز کی کئی حیثیت ہی نہیں۔ بھارتی بورڈ کے کرتا دھرتاؤں کا پختہ ایمان ہے کہ چونکہ بھارت آئی سی سی کی آمدنی میں مرکزی کردار ادا کررہا ہے تو اصولاً آمدنی کے بڑے حصے پر اس کا حق بھی بنتا ہے اور اس حق کو حاصل کرنے کے لیے بی سی سی آئی نے پہلے انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ اور پھر کرکٹ آسٹریلیا کو راضی کیا کہ جس اصول کے تحت آئی سی سی کی آمدنی سے اس کے حصے میں زیادہ پیسہ آئے گا، اسی کے تحت ان دونوں کرکٹ بورڈز کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔

ان تینوں کرکٹ بورڈز کو ملا کر "تین بڑوں" کا مثلث بنا ہے، جنہوں نے خوب سوچ بچار کے بعد اپنے کاروباری مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے سفارشات مرتب کیں۔ بات رہی بقیہ سات بورڈز کی تو ان ان کی ہر ماہ کی تنخواہیں بھی ان تین بڑوں ہی کی مرہون منت ہیں۔ ان ممالک کے کرکٹ بورڈز کی تقریباً 80 فیصد آمدنی آئی سی سی سے آتی ہے، جی ہاں! وہی آمدنی جو تین بڑوں سے حاصل ہوکر بین الاقوامی کرکٹ کو ملتی ہے۔ اس صورتحال میں ان ممالک کی رضامندی حاصل کرنے کی بھی ان "تین بڑوں" کو قطعاً فکر نہیں اور وقت ثابت کررہا ہے کہ ایک، ایک کرکے سب ملک پکے ہوئے پھلوں کی طرح ان کی گود میں گررہے ہيں۔

دوسری طرف پاکستان کرکٹ بورڈ کو ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال اور عمومی بدانتظامی نے مالی و سیاسی لحاظ سے اس قدر کمزور کردیا ہے کہ اپنے جائز مطالبات منوانے کے لیے بھی پاکستان منت سماجت پر مجبور ہوگیا ہے اور جہاں تک جنوبی افریقہ کا تعلق ہے تو بین الاقوامی کرکٹ کونسل میں اس کا اثرورسوخ نہ ہونے کے برابر ہے۔

ان حقائق کو غیر جذباتی انداز میں سمجھنے کے باوجود چند حلقوں کی جانب سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف کو غیرت کا مظاہرہ کرکے آئی سی سی میں تن تنہا ڈٹ جانے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ اول تو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ آئی سی سی اور تمام رکن ممالک کے کرکٹ بورڈز کاروباری ادارے ہیں اور ادارہ کاروباری ہو یا فلاحی، اگر ایسی صورتحال بن جائے کہ انسانی جذبات، نظریات، تصورات اور انفرادی مفادات کو ادارے کے مفادات سے ٹکرا دیا جائے تو اجتماعی مفادات کی قربانی سے ناکامی و بربادی ادارے کا مقدر بن جاتی ہے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن اس کی واضح مثال ہے۔ جب کوئی ادارہ تشکیل پاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی نصب العین بھی طے ہوتا ہے اور وہ اس ادارے کی کامیابی ہوتا ہے اور کاروباری ادارے کی کامیابی ہی اس کا انتظامی و معاشی طور پر مضبوط ہونا ہے ۔ اس نصب العین کو پانے کے لیے تمام ادارے جذبات، نظریات اور تصورات کو یک جانب رکھ کر سب سے پہلے ادارے کے مفادات کو مقدم رکھتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر اہم فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس پس منظر میں چیئرمین پی سی بی سے یہ توقع رکھی جارہی ہے کہ وہ کھیل کی خاطر اور "تین بڑوں" کو ان کے طاقت اور دولت کی ہوس کی سزا دینے کے لیے بحیثیت ادارہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا مفاد قربان کردیں۔

بھارت، انگلستان اور آسٹریلیا کے کرکٹ بورڈز نے کھیل کے مفادات، انسانی جذبات، نظریات اور اخلاقی جوازوں کو اپنے لیے رکاوٹ نہیں بنایا اور اپنے اداروں کے مفاد کو ہر چیز پر مقدم رکھتے ہوئے خالص کاروباری نصب العین کے مطابق یہ سفارشات مرتب کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کھیل کی کامیابی اور ترقی کسی ادارے کی مرہون منت نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو بھارت، پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں آج کرکٹ کا نام و نشان نہیں ہوتا، برازیل اور ارجنٹائن میں فٹ بال کے نام لیوا بھی نہ ہوتے، اسپین آج عالمی و یورپی چیمپئن نہ ہوتا ۔ برصغیر میں ادارے انتظامی لحاظ سے جس طرح چلائے جاتے ہیں، اس کی وضاحت کی قطعاً ضرورت نہیں۔

اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ "تین بڑوں" نے بہترین سفارشات مرتب کی ہے۔ ان میں بے شمار خامیاں ہیں لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے "تین بڑوں" کے عزائم کو روکنا ناممکن ہے اور بات یہ پی سی بی کو پہلے دن ہی سمجھ لینی چاہیے تھے لیکن اب بھی ذکا اشرف کے پاس ایک موقع موجود ہے کہ وہ بحیثيت ادارہ پی سی بی کے مفادات کو ہر چیز پر مقدم رکھتے ہوئے ایسا لائحہ عمل بنائیں کہ انگلستان اور آسٹریلیا سے روابط مزید خراب نہ ہوں کیونکہ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اس میں سیاسی عنصر بھی شامل ہے ۔ اس لیے موجودہ حالات میں بھارت سے توقعات وابستہ رکھنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ اس لیے انگلستان اور آسٹریلیا سے بہتر کرکٹ روابط پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ پھر انگلستان میں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد مقیم ہے اور انگلستان کے ساتھ اچھے روابط کی صورت میں ہی وہاں پاک-بھارت دو طرفہ سیریز کا انعقاد ہوسکتا ہے جو بلاشبہ متحدہ عرب امارات کے برعکس پاکستان کے لیے مالی لحاظ سے بہت زیادہ فائدہ مند ہوگا۔

ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ انگلستان اور آسٹریلیا کے کرکٹ بورڈز دورۂ بھارت کے لیے طے شدہ رقم کی ضمانت کا مطالبہ کرتے تھے جبکہ آج یہ ممالک بھارت کے دورے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیوچر ٹورز پروگرام کو راست ےسے ہٹانے کی سفارش بھی کی گئی۔ ماضی کے یہ تمام حقائق پاکستان کرکٹ بورڈز کو سامنے رکھنے چاہئیں اور یہ بات بھی ذہن نشین رکھے کہ پاکستان کا سب سے سنگین مسئلہ صرف دہشت گردی ہے، ورنہ یہاں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو تو بھارت کے بعد پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ جلد یا بدترین جب بھی پاکستان میں امن قائم ہوا، پاکستان دنیائے کرکٹ میں انگلستان اور آسٹریلیا سے زیادہ اہمیت اختیار کر جائے گا۔ اگر جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ کے کرکٹ بورڈز سے پاکستان کے تعلقات پہلے ہی بہتر ہیں تو انگلستان اور آسٹریلیا سے دوستی کا ہاتھ بھی نہیں چھوٹنا چاہیے۔