عامر سہیل ’’مٹی کا مادھو‘‘ بننے کے لیے تیار ؟
ذکا اشرف کی چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کی حیثیت سے واپسی کے بعد بورڈ کی ’’منجمد‘‘ صورتحال ختم ہوگئی ہے، اور آہستہ آہستہ نئی تقرریاں ہونا شروع ہوگئی ہیں جن میں سب سے اہم سابق کپتان عامر سہیل کو ڈائریکٹر گیم ڈویلپمنٹ بنانے کے ساتھ ساتھ چیف سلیکٹر کا اضافی عہدہ دینا بھی ہے۔ عامر سہیل اصول پسند آدمی ہیں جنہوں نے اصولوں کی خاطراپنے کیرئیر کی بھی قربانی دے دی ۔ ان دونوں عہدوں پر وہ ماضی میں بھی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں مگر اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کے باعث ان عہدوں سے استعفیٰ دیا۔ عالمی کپ 2003ء میں قومی ٹیم کی بدترین کارکردگی کے بعد عامر سہیل کو قومی ٹیم کی تشکیل نو کا ٹاسک دے کر سلیکشن کمیٹی کا چیف بنایا گیا تھا، جنہوں نے اس دور میں کئی کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل کرکٹ میں اتارا جن میں سے کچھ آج بھی پاکستانی ٹیم کے رکن ہیں جبکہ 2008ء میں عامر سہیل کو ڈائریکٹر گیم ڈویلپمنٹ بنایا گیا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد وہ مستعفی ہوگئے۔
پی سی بی کی گورننگ بورڈ کی میٹنگ میں عامر سہیل کو نیشنل اکیڈمی کا ڈائریکٹر گیم ڈویلپمنٹ بنانے کا فیصلہ ہوچکا تھا جبکہ چیف سلیکٹر کا عہدہ راشد لطیف کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا مگر سابق وکٹ کیپر نے مکمل اختیارات اور پی سی بی کی طرف سے دخل اندازی نہ کرنے کی شرط رکھی تو یہ ’’کڑی‘‘ شرائط پی سی بی کے قبول کرنا مشکل ہوگیا جس کے نتیجے میں عامر سہیل کو چیف سلیکٹر کا عہدہ بھی دے دیا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ راشد لطیف اور عامر سہیل ایک ہی طرح کی شخصیت کے مالک ہیں جو اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے مگر عامر سہیل نے جس آسانی سے چیف سلیکٹر کا عہدہ قبول کرلیا ہے وہ کسی حد تک حیرت انگیز ہے کیونکہ چیف سلیکٹر کا عہدہ حاصل کرنے کے بعدسابق ٹیسٹ اوپنر عامر سہیل نے اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے چیف سلیکٹر کے عہدے کے لیے اختیارات نہیں مانگے بلکہ اختیارات مانگنا ’’بھکاریوں‘‘ کا کام ہے۔
تین برس قبل میں نے ایک میگزین کے لیے انٹرویو کرتے ہوئے عامر سہیل سے پوچھا تھا کہ انہوں نے ڈائریکٹر گیم ڈویلپمنٹ کے عہدے سے استعفیٰ کیوں دیا تو سابق اوپنر کا کہنا تھا کہ ’’ میں اس طرح کا بندہ ہوں کہ اگر کسی وجہ سے میں اپنا کام نہ کرسکوں تو مجھے تسلی نہیں ہوتی اورمیں مطمئن ہوئے بغیر کام کرنے سے بہترسمجھتا ہوں کہ اس کام کو چھوڑ دیا جائے۔ میں کرکٹ کی بہتری کے لیے کام کرنے آیا تھا ناکہ تنخواہ لے کر آرام سے بیٹھ جانے کے لیے اس لیے میں نے بہتر یہی سمجھا کہ اس سے کنارہ کشی اختیار کرلوں۔‘‘
عامر سہیل دبنگ قسم کے آدمی ہیں جو لگی لپٹی کھے بغیر اپنی بات کہنے کے عادی ہیں ۔اگر چیئرمین پی سی بی نے ان کی منتخب کردہ ٹیم میں کوئی تبدیلی کی تو کیا وہ اسے باآسانی قبول کرلیں گے؟ اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں ملے گا کہ عامر سہیل واقعی ’’مٹی کے مادھو ‘‘بن کر بورڈ کی ہاں میں ہاں ملائیں گے یا ان کی اصول پسندی چیئرمین کی ’’اطاعت‘‘کی راہ میں حائل ہوجائے گی۔
عامر سہیل کی کھیل کی سوجھ بوجھ کے حوالے سے کوئی شک نہیں کیا جاسکتا اس لیے سابق اوپنر کو چیف سلیکٹر اور ڈائریکٹر گیم ڈویلپمنٹ دینے کا فیصلہ نہایت عمدہ معلوم ہورہا ہے جو نیشنل اکیڈمی میں کھلاڑیوں کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ ہونے کے ساتھ ٹیم کی سلیکشن کریں گے لیکن اس فیصلے کا ایک اور پہلو بھی سامنے آرہا ہے کہ پی سی بی کے چیئرمین ذکاء اشرف کو فی الوقت اپنا عہدہ بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور حکمران جماعت کی مخالف پارٹی سے تعلق رکھنے کے باعث ہر وقت ان کے سر پر برطرفی اور معطلی کی تلوار لٹک رہی ہے کیونکہ وزیر اعظم پاکستان انہیں ملاقات تک کا وقت نہیں دے رہا اور ’’بگ تھری‘‘ معاملے پر بھی ذکاء اشرف شش و پنج کا شکار ہیں اس لیے کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ ذکاء اشرف نے عامر سہیل کے کندھے کو استعمال کرتے ہوئے اپنا عہدہ بچانے کی کوشش کی ہے کیونکہ کچھ عرصہ قبل سیاسی میدان میں قدم رکھنے والے عامر سہیل کا تعلق حکمران جماعت سے ہے اور ممکن ہے کہ عامر سہیل ہی ذکاء اشرف اور وزیر اعظم کے درمیان ملاقات کا سبب بن جائیں جبکہ پی سی بی میں دو اہم عہدوں پر حکمران جماعت کے ’’کارکن‘‘ کی موجودگی بھی ذکاء اشرف کا خوشامدی فیصلہ ہوسکتی ہے۔
سیاسی وابستگی سے قطع نظر عامر سہیل کی دونوں عہدوں پر تقرری ایک اچھا فیصلہ معلوم ہورہی ہے کیونکہ عامر سہیل جیسے لوگ واقعی کرکٹ کی بہتری کے لیے کام کرتے ہیں اور جب ان کے کام میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے تو فوری طور پر عہدے سے الگ ہوجاتے ہیں اور کوئی مجبوری ان کی راہ میں حائل نہیں ہوتی۔عامر سہیل اس مرتبہ بھی پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے کام کریں گے لیکن ان کا یہ بیان کھٹک رہا ہے کہ انہوں نے چیئرمین پی سی بی سے اختیارات نہیں مانگے۔اگر وہ عامر سہیل واقعی ’’مٹی کا مادھو‘‘ بن کر بغیر اختیارات کے چیئرمین پی سی بی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے کام کریں گے تو پھر پاکستان کرکٹ کو عامر سہیل کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ کام کوئی ’’کاکا‘‘ بھی کرسکتا تھا۔