”پنڈی کا پانی‪“

1 1,060

خطہ پوٹھوپار کے متعلق ممتاز مفتی نے چار باتیں کہی تھیں جن میں تین کا ذکر یہاں کررہا ہوں کہ ”زمین ہموار نہیں،درخت پھلدار نہیں اور موسم کا اعتبار نہیں“۔ واقعی پوٹھوہار کے موسم کا کوئی اعتبار نہیں کہ کب گھنے بادل آکر چلچلاتی دھوپ کو کھا جائیں اور کب برستی بارش کے دوران سورج نمودار ہوکر بادلوں کو رخصت ہوجانے پر مجبور کردے۔لیکن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں موسم کو چکما دینے کے امکانات خاصے کم ہوگئے ہیں اور اس کی بدولت پہلے سے ہی آنے والے دنوں کے موسم کے بارے میں پتہ کیا ج اسکتا ہے۔ لوگ محکمہ موسمیات کی پیشن گوئیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے منصوبے ترتیب دیتے ہيں کہ کہیں موسم ان کے ارادوں کی راہ میں رکاوٹ نہ بن جائے۔ لیکن کیا کہنے پاکستان کرکٹ بورڈ کے، جن کے افسروں کو سواری کے لیے پرتعیش گاڑیاں حاصل کرنے کی تو مکمل سوجھ بوجھ ہے لیکن ڈومیسٹک کرکٹ کا شیڈول ترتیب دیتے ہوئے کسی عقلمندی کامظاہرہ نہیں کرتے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پی سی بی حکام آج پڑنے والے پانی کو کس طرح استعمال کرتے ہیں جو بہرحال  “چُلو بھر” سے کہیں زیادہ ہے (تصویر: Getty Images)
اب دیکھنا یہ ہے کہ پی سی بی حکام آج پڑنے والے پانی کو کس طرح استعمال کرتے ہیں جو بہرحال “چُلو بھر” سے کہیں زیادہ ہے (تصویر: Getty Images)

چند روز قبل لاہور میں قائد اعظم ٹرافی کا فائنل کروایا گیا جس میں راولپنڈی اور اسلام آباد کی ٹیمں غیر مانوس ماحول میں کھیلیں اور فائنل کا آخری دن بھی موسم سے متاثر ہوا مگر اس کے ایک دن بعد شدید دھند میں ون ڈے کپ کا فائنل کروانے کی ناکام کوشش کی گئی اور بعد ازاں دونوں ٹیموں کو مشترکہ فاتح قرار دیاگیا۔ اس وقت ضرورت تھی کہ قائد اعظم ٹرافی کا فائنل راولپنڈی اسلام آباد میں کروایا جاتا تاکہ ٹیموں کو ہوم گراؤنڈ کا ایڈوانٹیج بھی ملتا لیکن اب بارشوں کے موسم میں ٹی ٹوئنٹی کپ کی میزبانی ضرور جڑواں شہروں کو سونپ دی گئی ہیں، جہاں ٹورنامنٹ کا پہلا دن ہی مکمل طور پر بارش کی نذر ہوگیا جبکہ دوسرے دن کے لیے بھی برسات کی پیشن گوئی ہے اور دو دن کی بارش کے بعد پی سی بی کا گراؤنڈ اسٹاف ان شہروں کے چار میدانوں کو کتنی جلدی میچز کھیلنے کے قابل بنائے گا، یہ سوالیہ نشان اپنی جگہ پر بدستور موجود رہے گا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بورڈ کی عقل پر پتھر بلکہ پانی پڑ گیا ہو۔ ہر سال ڈومیسٹک سیزن میں ایسے اوٹ پٹانگ فیصلے مقابلوں کو متاثر اور کھلاڑیوں کو کوفت سے دوچار کرتے ہیں۔ کبھی ڈومیسٹک کرکٹ کے مقابلے ماہ رمضان میں کروا دیے جاتے ہیں تو کبھی یوم عاشور کے تقدس کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا اور عین وقت پر مقابلوں کی تاریخیں اور کبھی کبھار تو مقامات تک تبدیل کرنا پڑتے ہیں۔ ڈومیسٹک کھلاڑی بھی شاید اب ذہنی طور پر ان تبدیلیوں کے لیے تیار ہوچکے ہیں، جن کا یہی کہنا ہے کہ آخری وقت تک میچز کے شیڈول کا علم نہیں ہوتا۔

اس ٹی ٹوئنٹی کپ کے بعد پریزیڈنٹ ٹرافی کا پانچ روزہ فائنل کھیلا جانا ہے لیکن یہ کہاں کھیلا جائے گا، اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں کیا جا سکا۔ انگلستان میں لیگ کرکٹ کے میچز کا شیڈول بھی سیزن شروع ہونے سے پہلے بنا لیا جاتا ہے جس میں بعد میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی اور کھلاڑیوں کو علم ہوتا ہے کہ انہوں نے کس تاریخ کو کس میدان پر کس ٹیم کا سامنا کرنا ہے لیکن پاکستان میں سب سے بڑے فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ کی تاریخوں اور مقامات کو بالکل آخری وقت پر تبدیل کردیا جاتا ہے۔ دیگر ممالک میں ڈومیسٹ مقابلوں کے دوران ہفتہ و اتوار کے دنوں کو ضایع نہیں کیا جاتا تاکہ زیادہ سے زیادہ تماشائی میدان میں آکر مقابلے دیکھیں لیکن پاکستان میں اکثر فرسٹ کلاس مقابلے پیر کے دن شروع ہوتے ہیں۔

راولپنڈی و اسلام آباد میں طے شدہ ٹی ٹوئنٹی کپ اس لیے بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ سال کے اہم ترین عالمی ٹورنامنٹ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے قبل یہ قومی کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا آخری موقع فراہم کرتا ہے۔ نئے کھلاڑی اس ٹورنامنٹ میں عمدہ کارکردگی کے ذریعے میگا ایونٹ کھیلنے کے حقدار بن سکتے ہیں لیکن پی سی بی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے یہ اہم ترین ٹی ٹوئنٹی ایونٹ خراب ہو گیا ہے۔

ون ڈے کپ کے فائنل کے بعد اب ٹی ٹوئنٹی کپ بھی موسم کے رحم و کرم پر ہے گو کہ یہ بات علم میں ہے کہ فروری میں پنجاب میں موسم سرما کی بارشیں ہوتی ہیں جبکہ کراچی اس وقت بھی خشک اور کرکٹ کے لیے بہترین موسم کا حامل ہے۔ مگر کراچی کو نظرانداز کرنے کی پی سی بی حکام کی روش برقرار ہے۔ آخری مرتبہ ستمبر 2011ء میں کراچی میں قومی ٹی 20 کپ کھیلا گیا تھا۔ اگر کسی ٹورنامنٹ کا انعقاد کسی بڑے شہر ہی میں کرنا ہے تو موسم کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسے کراچی میں کروانا زیادہ مناسب تھا۔

پنڈی کا پانی ٹی ٹوئنٹی کپ کے افتتاحی روز کو تو بہا کر لے گیا ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ مزید کتنے مقابلوں پر پانی پھرتا ہے اور پی سی بی حکام اس پانی کا استعمال کس طرح کرتے ہیں جو بہرحال ”چُلو بھر“ سے کہیں زیادہ ہے!!