کیا ٹیم کا انتخاب واقعی اتنا برا ہوا ہے؟
بالآخر اظہر خان کی سربراہی میں قومی سلیکشن کمیٹی نے ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے ٹیموں کا اعلان کر ہی دیا جس میں چند کھلاڑی ٹیم میں واپس آئے اور کچھ کو باہر کی راہ لینا پڑی، جو کوئی نئی بات نہيں لیکن اس اعلان کے ساتھ ہی ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ چند ’’ماہرین‘‘ اپنے ’’من پسند‘‘ کھلاڑیوں کے اخراج پر چیں بچیں ہیں تو دوسری طرف ان کھلاڑیوں کے بھی لتے لیے جا رہے ہیں جو ٹیم میں منتخب ہوگئے ہیں، شاید یہی ان کا قصور تھا۔
ایشیا کپ کے لیے جس ٹیم کا انتخاب ہوا ہے، وہ کم و بیش انہی کھلاڑیوں پر مشتمل ہے جنہوں نے سری لنکا کے خلاف حالیہ سیریز میں حصہ لیا تھا اور ان کا انتخاب بھی یقینی دکھائی دے رہا تھا۔ اس ٹیم میں صرف ایک سلیکشن قابل ذکر ہے وہ ہے کراچی اور نیشنل بینک کی جانب سے کھیلنے والے فواد عالم کا انتخاب۔ جنہیں تقریباًساڑھے تین سال بعد قومی ٹیم کے لیے چنا گیا ہے۔ بہت سے حلقوں کو فواد عالم کے نام سے بھی ’’چڑ‘‘ ہے اور وہ بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے فواد کو بین الاقوامی معیارکا کھلاڑی ہی تسلیم نہیں کرتے۔ فواد کو نومبر 2010ء میں دو ون ڈے مقابلوں میں ناکامی کی پاداش میں قومی ٹیم سے ڈراپ کیا گیا تھا حالانکہ ان دو مقابلوں سے قبل فواد 48 اور59*رنز کی باریاں کھیل چکا تھا۔ اب ڈومیسٹک کرکٹ میں مستقل شاندار کارکردگی کے ذریعے جب فواد نے پریزیڈنٹس کپ میں 87.60 کے اوسط سے 438 رنز بنا کر ٹاپ بیٹسمین کا اعزاز حاصل کیا تو سلیکشن کمیٹی بھی ان کو قومی ٹیم سے باہر نہ رکھ سکی۔
ایک جانب یہی ’’ماہرین‘‘ فواد عالم کی قومی ٹیم میں واپسی کو سلیکشن کمیٹی کا ’’عمدہ‘‘ فیصلہ قرار دے رہے ہیں تو وہیں اسی ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھانے والے کامران اکمل کی شمولیت پر سیخ پا ہیں۔ ماضی قریب کےایک اسٹار کھلاڑی نے تو ایک ٹیلی وژن چینل پر یہ تبصرہ تک کر ڈالا کہ کامران اکمل وکٹ کیپر نہیں بلکہ گول کیپر ہیں جبکہ ایک سمت سے آواز بلند ہوئی کہ کامران اکمل کے دستانوں میں ’’چھید‘‘ ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کامران اکمل نے حالیہ ون ڈے کپ میں دیگر وکٹ کیپرز کے مقابلے میں سب سے زیادہ یعنی 263رنز بنائے، جس میں ایک سنچری شامل ہے اور وکٹوں کے پیچھے 14شکاروں کے ساتھ تیسرا نمبر حاصل کیا۔جب ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی کی بنیاد پر فواد عالم کا انتخاب قابل ستائش ہے تو اسی معیار پر کامران اکمل کی شمولیت پر تنقید؟ چہ معنی دارد!
غالباً کامران اکمل کی شمولیت کو اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ یہ انتخاب شارجہ ٹیسٹ کے ’’ہیرو‘‘ سرفراز احمد کی جگہ عمل میں آیا ہے۔ سرفراز حالیہ کچھ عرصے سے قومی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا حصہ نہيں اور دورۂ زمبابوے میں بھی جب محدود اوورز کے مقابلوں میں انہیں آزمایا گیا تھا تب بھی وہ اپنی صلاحیتوں سے انصاف نہیں کر پائے تھے۔ پھر پریزیڈنٹس کپ میں سرفراز نے پانچ مقابلوں میں صرف چھ شکار کیے اور چار اننگز میں محض 73 رنز بنائے۔ یہ ہرگز ایسی کارکردگی نہیں کہ سرفراز کو محدود اوورز کی کرکٹ میں بھی ملک کی نمائندگی کا موقع دیا جائے۔ اگر ٹیسٹ میچ کی کارکردگی کو بنیاد بنا کر محدود اوورز میں بھی ٹیم کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تو میرے خیال میں سب سے پہلا حق اظہر علی کا بنتا ہے جنہوں نے شارجہ ٹیسٹ میں غیر معمولی اننگز کھیلی تھی۔
شعیب ملک کی ٹیم میں واپسی ’’بلاتبصرہ‘‘ ہے۔ پچھلی بار جب نجم سیٹھی پاکستان کرکٹ بورڈ کی ’’نگرانی‘‘ کرنے آئے تھے تو اس وقت بھی شعیب قومی ٹیم میں واپس آ گئے تھے اور اب ایک مرتبہ پھر ایسا ہی ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ سلیکشن کمیٹی نے آسٹریلیا کی بگ بیش لیگ میں ناکام ہونے والے آل راؤنڈر کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کی خاطر یہ فیصلہ کیا ہو۔
دوسری جانب حارث سہیل کے انخلاء کو بھی ناانصافی قرار دیا جا رہا ہے لیکن اگر فواد کی جگہ حارث کو ٹیم میں شامل کرلیا جاتا تو یہ زیادہ بڑی زیادتی ہوتی۔
سابق انتظامیہ نے محمد عرفان کے بین الاقوامی کیریئر کو سخت مشکلات سے دوچار کردیا ہے جو دو اہم ترین ایونٹس میں ٹیم کا حصہ نہیں ہوں گے البتہ ان کی جگہ محمد طلحہ کی دونوں ٹورنامنٹس میں شمولیت ایک اچھا فیصلہ ہے اور حقیقی رفتار کا حامل یہ پیسر دونوں ایونٹس میں پاکستان کے لیے ترپ کا پتہ ثابت ہو سکتا ہے۔
بحیثیت مجموعی ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے ٹیموں کا انتخاب اتنا بھی برا نہيں کہ جتنا واویلا مچایا جا رہا ہے۔ کسی ایک شہر کے کھلاڑیوں کی حمایت اور دوسروں شہر کے کھلاڑیوں کی مخالفت ہرگز صحت مندانہ سوچ نہیں ہے اور اس رویے سے پاکستان کرکٹ کو چنداں کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ یہ لاکھوں کروڑوں کرکٹ شائقین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہوگا!