سرزمین پاک پر آسٹریلیا کا "شاندار" استقبال
مارچ 1877ء میں کرکٹ تاریخ کا اولین ٹیسٹ مقابلہ کھیلا گیا تھا، جس میں 'بابائے کرکٹ' انگلستان کو آسٹریلیا کے ہاتھوں 45 رنز سے شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ انگلستان کو اس ہزیمت سے دوچار کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ انہی سے کھیل سیکھنے والے آسٹریلیا کے کھلاڑی تھے۔ 9 دہائیوں سے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے والے اسی آسٹریلیا نے جب برصغیر کے اولین دورے کا فیصلہ کیا تو بھارت کے خلاف تین ٹیسٹ کے ساتھ ساتھ کمال "فیاضی" کا مظاہرہ کرتے ہوئے نوآموز پاکستان کو بھی ایک ٹیسٹ سے نواز دیا۔ اس وقت کیونکہ آسٹریلیا اپنے گھریلو میدانوں پر انگلستان سے ایشیز ہار چکا تھا اس لیے بھارت کے خلاف تین مقابلوں سے قبل غالباً مشق کی نیت سے پاکستان کے خلاف ٹیسٹ کھیلنے پر رضامندی ظاہر کی۔ بہرطور، عبد الحفیظ کاردار کی زیر قیادت ٹیم نے سرزمین پاک پر آسٹریلیا کا "بھرپور" خیرمقدم کیا۔
پاکستان گزشتہ سال ہی نیوزی لینڈ کے خلاف تاریخی سیریز جیت چکا تھا اور کرکٹ سپر پاور آسٹریلیا کے خلاف گو کہ ایک ہی ٹیسٹ طے تھا، لیکن قومی ٹیم کا جوش عروج پر تھا۔
اس واحد ٹیسٹ میں اکتوبر 1952ء میں پاکستان کے دورۂ بھارت کے اولین ٹیسٹ میں بھارت کی نمائندگی کرنے والے گل محمد نے پہلی بار پاکستان کی نمائندگی کی۔ آپ ٹھیک چار سال بعد اکتوبر 1956ء میں آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کی جانب سے کھیل کر ٹیسٹ کرکٹ میں دو ممالک کی نمائندگی کا اعزاز پانے والے کھلاڑیوں میں شامل ہوئے۔ بھارت کی جانب سے آٹھ ٹیسٹ کھیلنے والے گل محمد کا یہ پاکستان کے لیے پہلا و آخری میچ تھا۔ دوسری جانب پاکستان کے پہلے غیر مسلم کھلاڑی والس میتھائس بھی اس مقابلے میں شامل تھے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے والے والس بہترین فیلڈر اور نچلے نمبروں پر کھیلنے والے عمدہ بلے باز تھے، جنہوں نے بیس سال کی عمر میں نیوزی لینڈ کے خلاف ڈھاکہ ٹیسٹ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور مجموعی طور پر 21 ٹیسٹ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
نیشنل اسٹیڈیم آسٹریلیا کے خلاف واحد مقابلے کا میزبان تھا۔ یہ میدان بعد ازاں دوسری ٹیموں کے لیے 'شیر کی کچھار' ثابت ہوا کیونکہ پاکستان عرصہ دراز تک یہاں ناقابل شکست رہا۔ 11 اکتوبر 1956ء کو این جانسن اور عبد الحفیظ کاردار ٹاس کے لیے میدان میں اترے، جہاں فیصلہ آسٹریلیا کے حق میں ہوا جس نے پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ آسٹریلیا ایشیز میں بری طرح ناکامی کا ازالہ کرنے اور بھارت کے خلاف بڑی سیریز کی تیاری کے لیے بیٹنگ کی بھرپور مشق کرنا چاہتا تھا لیکن شاید انہیں فضل محمود کی صلاحیتوں کا درست اندازہ نہیں تھا، جنہوں نے پہلے ہی دن اپنی تباہ کن باؤلنگ اور خان محمد کے بھرپور ساتھ کی بدولت آسٹریلیا کی بیٹنگ لائن اپ کو تہس نہس کر ڈالا۔
بلے باز ی میں آسٹریلیا کے بڑے نام نیل ہاروے، کیتھ ملر، جم برک اور رچی بینیو سمیت ابتدائی 6 کھلاڑی فضل کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے جبکہ اسکور محض 52 رنز تھا۔ فضل نے صرف 34 رنز دے کر 6 وکٹیں حاصل کیں اور دوسرے اینڈ سے خان محمد نے بقیہ چار وکٹوں پر اپنا ہاتھ صاف کر ڈالا۔ یوں آسٹریلیا کی پوری ٹیم محض 80 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔
'بے بی آف کرکٹ' سمجھے جانے والے پاکستان کے خلاف ٹاس جیت کر آسٹریلیا سے ایسے کھیل کی توقع تو کسی کو نہ تھی۔ صرف کیتھ ملر کی 20 سے زیادہ رنز بنا پائے باقی کوئی اس ہندسے کو بھی نہ چھو سکا۔
پاکستان نے پہلے ہی روز آخری سیشن میں اپنی پہلی اننگز شروع کی۔ حنیف محمد اور علیم الدین میدان میں بھرپور حوصلے کے ساتھ اترے لیکن ابھی پاکستان کا مجموعہ صرف تین رنز ہی تھا تو حنیف محمد بغیر کھاتہ کھولے وکٹوں کے پیچھے کیچ دے گئے۔ علیم اور پاکستان کے لیے پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے گل محمد بقیہ دن گزارنے کی کوششوں میں مصروف تھے کہ دن کی آخری گیند پر علیم الدین بھی آؤٹ ہوگئے۔ پاکستان نے دن کا اختتام صرف 15 رنز پر دو وکٹوں کے ساتھ کیا۔
دوسرے روز گل محمد اور وقار حسن نے سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں سے ٹوٹا تھا لیکن حالات کسی قدر سنبھلنے میں نہيں آ رہے تھے۔ پاکستان محض 10 رنز کے اضافے پر وقار حسن سے بھی محروم ہوچکا تھا۔ صرف 35 رنز پر چار مستند بلے باز گنوانے کے بعد ایک بڑا دھچکا 70 کے مجموعے پر لگا جب امتیاز احمد رچی بینیو کا واحد شکار بن گئے۔ پاکستانی اننگز ڈگمگانے لگی، آدھی ٹیم میدان سے لوٹ چکی تھی لیکن کپتان ابھی کریز پر موجود تھے۔ انہوں نےوزیر محمد کے ساتھ مل کر ڈوبتی نیّا کو پار لگایا اور دونوں نے چھٹی وکٹ پر 104 رنز جوڑ کر اسکور کو 174 رنز تک پہنچا دیا۔ دونوں بلے بازوں کی نصف سنچریوں نے پاکستان کو 96 رنز کی برتری دے دی تھی۔
اطمینان بخش پوزیشن پر پہنچنے کا نقصان یہ ہوا کہ کاردار کا ارتکاز ایک لمحے کے لیے ٹوٹا اور آسٹریلوی ہم منصب نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں وکٹوں کے سامنے پھانس لیا۔ کاردار 69 رنز بنا کر میدان سے واپس آئے اور یہ آسٹریلیا کے خلاف اتنا اہم ثابت ہوا کہ انہیں بقیہ وکٹیں گرانے میں زیادہ دشواری پیش نہ آئی۔ والس میتھائس بھی این جانسن کو وکٹ تھما گئے اور دوسرے دن کے اختتام کے ساتھ ہی 199 رنز پر پوری ٹیم آؤٹ ہو چکی تھی۔ وزیر 67 رنز بنانے کے بعد میدان سے لوٹے۔
آسٹریلیا نے تیسرے دن کا آغاز 119 رنز کے بوجھ تلے کیا اور ابھی اس قرض کو اتارنے کے لیے مہلت ہی نہ ملی تھی کہ فضل ایک مرتبہ پھر قہر بن کر ٹوٹ پڑے۔ کولن میک ڈونلڈ 3، جم برک 10، تجربہ کار و مایہ ناز بلے باز نیل ہاروے 4 اور این کریگ 18 رنز کی انفرادی اننگز کے ساتھ فضل محمود کے شکار بن گئے۔ دوسرے اینڈ سے خان محمد نے این کریگ کو کلین بولڈ کرکے آدھی آسٹریلوی ٹیم کو پویلین پہنچا دیا اور ایک مرتبہ پھر اسکور بورڈ پر 47 رنز 5 کھلاڑی آؤٹ کا ہندسہ آسٹریلیا کا منہ چڑا رہا تھا۔
آسٹریلیا کراچی میں اننگز کی شکست کے خطرے سے دوچار تھا اور رون آرچر اور رچی بینیو نے اس ہزیمت سے بچانے کا بیڑہ اٹھایا۔ اننگز کو نچلے ترین گیئر میں لا کر انہوں نے 64 رنز جوڑے، اور اس ہزیمت سے تو آسٹریلیا کو تقریباً بچا ہی لیا۔ پاکستان آخری سیشن میں آرچر کی وکٹ لینے میں کامیاب ہوگیا، جب اسکور 'نیلسن' یعنی 111 پر پہنچا۔ ویسے یہ جو نیلسن کو منحوس عدد کہتے ہیں نا، غلط نہیں کہتے 🙂
تیسرے دن کا اختتام آسٹریلیا کی پاکستان پر 19 رنز کی برتری کے ساتھ ہوا، رچی بینیو اور ایلن ایلن ڈیوڈسن کریز پر موجود تھے۔
اتوار 14 اکتوبر کو آرام کرنے کے بعد سوموار کو دونوں ٹیمیں چوتھے روز کے کھیل کے لیے میدان میں اتریں ۔ رچی بینیو رون آرچر کے ساتھ 64 اور پھر ڈیوڈسن کے ساتھ 30 رنز کی رفاقت سازی کے ساتھ ڈٹے ہوئے تھے لیکن چوتھا آسٹریلیا کے لیے کوئی معجزہ لے کر نہیں آیا۔ صرف 4 رنز کے اضافے پر فضل نے رچی کے تمام دفاعی بندھن توڑتے ہوئے انہیں کلین بولڈ کردیا اور یوں دوسری اننگز میں بھی پانچ وکٹیں سمیٹ کر میچ میں 10 وکٹیں حاصل کرنے کا ایک اور کارنامہ درج کرلیا۔ لیکن اس کے بعد فضل رکے نہیں، اسی اسکور پر رے لینڈویل اور پھر محض تین رنز کے اضافے پر کپتان این جانسن کو بھی آؤٹ کرکے اننگز میں وکٹوں کی تعداد 7 کرلی۔ 143 رنز کے ساتھ اب آسٹریلیا کی محض ایک وکٹ باقی تھی اور اس آخری گولی اور آخری سپاہی نے 44 رنز کی شراکت داری کے ذریعے شکست کو کچھ دیر کے لیے مزید ٹال دیا۔ جب خان محمد نے ڈیوڈسن کو وکٹوں کے پیچھے امتیاز احمد کے ہاتھوں کیچ آؤٹ کروایا تو آسٹریلیا کی اسکور محض 187 رنز تھا اور پاکستان کو ایک اور تاریخی جیت کے لیے 69 رنز کا ہدف ملا۔
دوسری اننگز میں رچی بینیو 56 رنز کے ساتھ سب سے نمایاں رہے اور ان کی یہی باری تھی جس نے آسٹریلیا کو پہلی بار پاکستان پہنچتے ہی اننگز کی شکست سے بچایا۔ فضل نے 48 اوورز پھینکے اور صرف 80 رنز دے کر 7 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور میچ میں اپنی وکٹوں کی تعداد کو 13 تک پہنچا دیا جبکہ خان محمد نے 69 رنز کے عوض تین کھلاڑی آؤٹ کیے، یعنی میچ میں 7 وکٹیں۔ کمال دیکھیں کہ صرف یہی دونوں باؤلرز آسٹریلیا جیسی جانی مانی ٹیم کے لیے کافی ثابت ہوئے۔ دونوں نے میچ میں مجموعی طور پر 141 اوور زپھینکے اور آسٹریلیا کی تمام یعنی 20 کی 20 وکٹیں اپنے نام کیں۔ یہ اعدادوشمار ان دونوں باؤلرز کی زبردست فٹنس، کمال مہارت اور ذہنی پختگی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔
پاکستان نے چوتھے دن کے اختتام تک درکار 69 میں سے 63 رنز بنا لیے اور صرف حنیف محمد کی وکٹ گنوائی۔ فتح سے صرف 6 رنز کے فاصلے پر تھا کہ امپائروں نے دن تمام ہونے کا اعلان کردیا۔علیم الدین اور گل محمد کو ایک تاریخی فتح کے لیے دو راتیں مزید انتظار کرنا پڑا کیونکہ منگل 16 اکتوبر بھی آرام کا دن تھا۔ 17 اکتوبر کی صبح پاکستان نے بقیہ 6 رنز بنا کر دنیائے کرکٹ کی دوسری سپر پاور آسٹریلیا کے خلاف بھی جیت حاصل کرلی اور سیریز کا واحد ٹیسٹ ہونے کی وجہ سے یہ سیریز بھی پاکستان کے نام ہوئی۔
انگلستان اور بھارت کے خلاف تاریخی فتوحات میں کلیدی کردار ادا کرنے والے فضل محمد نے اپنی سرزمین پر بھی صلاحیتوں کو منوایا۔ مزیدار بات یہ ہے کہ اس بدترین شکست کے باوجود آسٹریلیا آئندہ دورۂ بھارت میں تین مقابلوں کی سیریز دو-صفر سے جیت گیا تھا۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ اتنی مضبوط ٹیم کے خلاف پاکستان کی فتح کی اہمیت کیا تھی۔