پاکستان: آسان جیت کو مشکل بنانے والا چیمپئن
امید ہے کہ بھارت کو شکست دینے کا قومی نشہ اب کچھ اتر گیا ہوگا اور چند ایسے پہلوؤں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی جاسکتی ہے، جن کا تذکرہ کم از کم کل تک خودکشی کا آسان راستہ ہوتا۔
کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ ہمارے 'گیانی' کپتان نے پہلا ایک روزہ کھیلنے والے محمد طلحہ سے لگاتار سات اوورز کیوں کروائے؟ جس کی وجہ سے یہ ہونہار تیز باؤلر ان فٹ ہو کر میدان سے باہر جانے پر مجبور ہوا؟ چلیں، ایک طرح سے اچھا ہی ہوا کیونکہ کپتان صاحب تو شاہد لگاتار تمام دس اوورز پھنکوانے کا ارادہ رکھتے تھے!
دوسری طرف محترم پروفیسر صاحب ایک الگ ہی مخلوق ہیں، جتنے پکڑتے ہیں، اتنے ہی گرا کر حساب کتاب برابر کرکے ہی میدان سے باہر آتے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ ہمیشہ مشکل کیچ پکڑ لیتے ہيں اور آسان ترین ان کے ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق محمد حفیظ نے اکتوبر 2012ء سے اب تک 16 کیچ تھامے ہیں اور 12 گرائے ہیں۔ محمد حفیظ نے رویندر جدیجا کا آسان ترین کیچ چھوڑا تو وہ صرف 12 رنز پر کھیل رہا تھا اور بھارت 43 اوورز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر 187 رنز بنا پایا تھا۔ لیکن زندگی ملنے کے بعد جدیجا نے اگلے 7 اوورز میں 40 رنز جڑ دیے اور بھارت 58 رنز کے اضافے کے ساتھ 245 رنز کے قابل عزت مجموعے کو پانے میں کامیبا ہوگیا۔
پاکستان کی باری شروع ہوتے ہی ایک بات بالکل واضح تھی کہ بلاوجہ خطرات مول لینے کی کوئی ضرورت نہیں، عام رفتار سے کھیلنے کے ساتھ بھی زیادہ سے زیادہ 45 اوورز میں ہدف پورا ہوجائے گا۔ پھر اوپنرز احمد شہزاد اور شرجیل خان کی تیز رفتار شراکت نے تو 245 تک پہنچنے کو بچوں کا کھیل بنا دیا تھا۔ لیکن پھر پاکستانی ٹیم اپنے اصل رنگ میں آ گئی۔ محمد حفیظ یہ بھول کر برق رفتار رن کی کوشش میں کریز سے نکلے کہ ابھی پچھلے ہی اوور میں پاکستان کی وکٹ گرچکی ہے اور ابھی پورے 34 اوورز اور 8 وکٹیں باقی ہیں۔ محمد حفیظ کی ’’پھرتی‘‘ کا نتیجہ مصباح کے بالکل غیر ضروری رن آؤٹ کی صورت میں برآمد ہوا۔ حفیظ کی یہ دوسری عظیم حماقت تھی جس نے بھارت کو ایک مرتبہ پھر مقابلے میں واپس آنے کا موقع دیا۔کچھ دیر بعد ’’بے پناہ صلاحیت‘‘اور ’’بے اعتبار عقل‘‘ کے مالک عمراکمل نے رہی سہی کسربھی پوری کردی۔میچ دیکھنے والا کوئی بھی شخص یہ دیکھ رہاتھا کہ امیت مشرا کی گیند بہت تیزی سے اسپن لے رہی ہے اور اسی لیے اسے احتیاط سے کھیلنے ہی میں سمجھداری ہے جبکہ پاکستانی ٹیم پر تیز رفتاری سے رن بنانے کا کوئی دباؤ بھی نہیں تھا لیکن عمراکمل کا’’ٹیلنٹ‘‘ حسبِ معمول غلط وقت پر بے قابو ہوگیا اور اس نے مشراکی تیزی سے گھومتی گیند کو اسٹیڈیم سے باہر پھینکنے کی سعی لاحاصل کی اور آسان فتح کی جانب بڑھتی ٹیم کے لیے خطرات میں بے پناہ اضافہ کردیا۔
ٹیم سے باہر ہونے کے بعد بمشکل واپس آنے کےباوجود اپنی آوارہ منش بلے بازی کا سلسلہ طویل کرکے عمر اکمل نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ سدھرنے والی چیز نہیں ہے۔
اب ہمارے بھائی لالا کی بات ہوجائے۔ یہ خدا کا بندہ قوم کو جہاں وقتاً فوقتاً خوشیوں سے نہال کرتارہتاہے، وہیں نصف ہزارکے قریب ون ڈے میچ کھیلنے کے باوجود گلی کوچے کے چھ اوورز کے میچ والا بے جگرکھیل فراموش کرنے کوتیارنہیں ہے۔ ایک ایسے مرحلے پر، جب اس کے ایک انتہائی ذہانت آمیزچھکے کی بدولت پاکستان کوتین گیندوں پر صرف تین رنزدرکارتھے ،جوآفریدی جیسے بلے بازکے لیے بچوں کے کھیل سے بھی زیادہ آسان ہدف تھا،اورجبکہ پاکستان کاآخری پیئر میدان میں موجودتھا،اتناخطرناک شاٹ کھیلنے کی کیاضرورت تھی ؟ جوباآسانی انڈیاکی ہارکوجیت میں بدل کر 18 کروڑپاکستانیوں کادل زخمی کرسکتاتھا!
کچھ دوست اس 'مس ہٹ' کے چھکے میں بدلنے کو چھوٹی باؤنڈری کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، لیکن مجھے پختہ یقین ہے کہ خوشی کی ہلکی سی مہک کو ترستے ان گنت پاکستانیوں کی دعاؤں نے فضا میں عمودی سمت اچھالی گئی اس گیند کو باؤنڈری کے باہر پہنچا کر پاکستان کو فتح سے ہمکنار کیا، ورنہ ہماری ٹیم نے تو ایک جیتا ہوا میچ ہارنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی دی۔ آپ کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2007ء کا فائنل تو یاد ہوگا نا؟ مصباح الحق کا اسکوپ اور پاکستان کا عالمی اعزاز سے محروم ہوجانا؟ بس وہی تاریخ ایک مرتبہ پھر دہرائی جانے والی تھی کہ دعاؤں نے لاج رکھ لی۔