ایشین چیمپئن کون؟ فیصلہ آج ہوگا!

0 1,042

ایشیا کپ 2014ء کے فائنل میں آج مقابلہ ہوگا سخت ترین امتحانات سے کامیابی سے گزرنے والے پاکستان اور ٹورنامنٹ میں اب تک ناقابل شکست رہنے والے سری لنکا کا۔ بازی مستقل مزاج کے نام رہے گی یا ناقابل یقین کو ملے گی، اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن یہ توقع ضرور ہے کہ ٹورنامنٹ کے دیگر میچز کی طرح فائنل میں بھی کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔

ایشیا کپ کے افتتاحی مقابلے میں صرف 11 رنز دے کر 5 پاکستانی کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے والے لاستھ مالنگا فائنل میں اصل خطرہ ہوں گے (تصویر: AFP)
ایشیا کپ کے افتتاحی مقابلے میں صرف 11 رنز دے کر 5 پاکستانی کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے والے لاستھ مالنگا فائنل میں اصل خطرہ ہوں گے (تصویر: AFP)

یہ دفاعی چیمپئن پاکستان کا چوتھا ایشیا کپ فائنل ہے۔ پاکستان 1986ء میں پہلی بار ایشیا کپ کے فائنل میں پہنچا تھا جس میں اسے سری لنکا ہی کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی لیکن اس کے بعد اگلی مرتبہ فائنل تک رسائی کے بعد دونوں بار پاکستان نے یہ اعزاز جیتا۔ گو کہ اسے پہلی بار ایشیا کپ جیتنے کے لیے اس فائنل کے بعد مزید 14 سال اور پھر اگلی بار 12 سال انتظار کرنا پڑا۔ پاکستان نے آخری مرتبہ 2012ء میں میرپور کے اسی شیر بنگلہ نیشنل اسٹیڈیم میں ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد بنگلہ دیش کو شکست دے کر یہ اعزاز جیتا تھا جبکہ اس سے قبل موجودہ ہیڈ کوچ معین خان کی زیر قیادت 2000ء میں ٹیم ایشیائی چیمپئن بنی تھی۔

ایشیا کپ کی تاریخ میں پاکستان کی سری لنکا کے خلاف کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ دونوں ٹیمیں 13 مرتبہ اس ٹورنامنٹ میں آمنے سامنے آئیں اور پاکستان کو ان میں سے صرف 4 مقابلوں میں جیت نصیب ہوئی بقیہ 9 مقابلے سری لنکا نے جیتے، جن میں 1986ء کا مذکورہ فائنل مقابلہ بھی شامل ہے۔ البتہ ایک روزہ ٹورنامنٹ کے فائنل مقابلوں میں دونوں ٹیموں کا جائزہ لیا جائے تو معاملہ بالکل برابر ہی کا ہے۔ پاکستان اور سری لنکا کسی بھی ون ڈے ٹورنامنٹ کے فائنل میں 12 مرتبہ آمنے سامنے آئے ہیں اور 6 مرتبہ پاکستان نے اور اتنی ہی مرتبہ سری لنکا نے فتح حاصل کی ہے۔ آخری مرتبہ دونوں ٹیمیں تقریباً دس سال پہلے پاک ٹیل کپ کے فائنل میں لاہور میں مدمقابل آئی تھیں، جہاں سری لنکا نے 119 رنز کے بھاری مارجن سے فتح حاصل کی تھی۔

اگر مجموعی طور پر ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ میں پاک-لنکا مقابلوں کی تاریخ دیکھی جائے تو پاکستان کاپلڑہ بھاری نظر آتا ہے لیکن سری لنکا ایک عرصے تک 'دنیائے کرکٹ کا طفل مکتب' رہا ہے، اس لیے اگر صرف گزشتہ 20 سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو معاملہ تقریباً برابر ہی کا ٹھہرتا ہے۔ 1994ء سے 2014ء تک دونوں ٹیموں کے درمیان 98 ایک روزہ بین الاقوامی مقابلے ہوچکے ہیں جن میں 48 پاکستان نے اور 46 سری لنکا نے جیتے، یعنی پچھلی دو دہائیوں سے دونوں ٹیموں میں تقریباً برابری کا ہی معاملہ ہے۔

جاری ایشیا کپ کا افتتاحی مقابلہ بھی اعزاز کے ان دونوں امیدواروں کے مابین کھیلا گیا تھا جس میں پاکستان کو مایوس کن انداز میں صرف 12 رنز سے شکست ہوئی تھی۔ اس شکست کے بعد پاکستان ٹورنامنٹ میں تمام مقابلے جیتنے میں کامیاب رہا اور بھارت اور بنگلہ دیش کے خلاف میچز انتہائی سنسنی خیز مراحل کے بعد جیتے۔ روایتی حریف پر پاکستان نے شاہد آفریدی کی دھواں دار بیٹنگ کی بدولت محض 1 وکٹ سے فتح پائی جبکہ بنگلہ دیش کے خلاف صرف تین وکٹوں کی فتح میں بھی آفریدی کا کردار کلیدی رہا۔ یعنی پاکستان یہ دونوں مقابلے مکمل طور پر انفرادی محنت کی وجہ سے جیتا اور اجتماعی حیثیت سے دیکھا جائے تو دونوں مقابلوں میں پاکستان کی کارکردگی تسلی بخش نہیں تھی۔ بالخصوص بنگلہ دیش جیسے کمزور حریف کے خلاف پاکستانی باؤلنگ کا 326 رنز کھا جانا کافی پریشان کن امر ہے۔

دوسری جانب سری لنکا اس وقت بہترین فارم میں ہے۔ ایشیا کپ کے آغاز سے قبل اس نے بنگلہ دیش کے خلاف تین ون ڈے مقابلوں کی سیریز کھیلی، اور تمام ہی مقابلے بھی جیتے، اس لیے وہ بنگلہ دیش کے حالات و کیفیات سے زیادہ آشنائی رکھتا ہے۔ پھر سری لنکا ایشیا کپ کا فائنل کھیلنے کا تجربہ بھی زیادہ رکھتا ہے گو کہ اسے 9 میں سے 5 مرتبہ شکست کا منہ دیکھنا پڑا لیکن 1986ء، 1997ء، 2004ء اور 2008ء میں وہ یہ اعزاز جیتنے میں ضرور کامیاب ہوا۔ جس طرح پاکستان کے اعصاب کا بھرپور امتحان ہوا ویسے ہی سری لنکا نے بھی بہت سخت مقابلے کھیلے ۔پاکستان کے خلاف 12 رنز سے فتح حاصل کرنے کے بعد بھارت کے مدمقابل بھی اسے محض 2 وکٹوں کی فتح نصیب ہوئی۔ بنگلہ دیش کے خلاف آخری مقابلے میں 75 رنز پر 5 کھلاڑی آؤٹ ہوجانے کے بعد ٹیم نے تین وکٹوں سے کامیابی حاصل کی اور یہی امر سری لنکا کے لیے پریشان کن ہے۔ پاکستان جیسے مضبوط حریف کے خلاف وہ ٹاپ آرڈر بلے بازوں کی اس طرح ناکامی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ البتہ اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے خلاف نچلے بلے بازوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور شاندار کامیابیاں سمیٹیں۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سری لنکا فائنل جیتنے کے لیے بہترین امیدوار ہے کیونکہ وہ پاکستان کے خلاف ابتدائی مقابلہ بھی جیت چکا ہے لیکن دو شاندار فتوحات کے بعد پاکستان کے حوصلے بھی آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔ اب خواہش صرف اتنی ہے کہ امپائرز آڑے نہ آ جائیں کیونکہ اس ٹورنامنٹ میں اب تک امپائرنگ کا معیار بہت ناقص رہا ہے، ایسا نہ ہو کہ ایشیا کپ میں فیصلہ کن عنصر کسی کھلاڑی کی کارکردگی کے بجائے کسی امپائر کی حرکت ہو۔