ایشیا کپ مدتوں یاد رہے گا
کولمبو کی سڑکوں پر شائقین کرکٹ ایشیا کپ جیتنے کا جشن مناتے اور سری لنکا کے کھلاڑیوں کو کھلی چھت کی بس پر بیٹھ کر داد وصول کرتے ہوئے دیکھنا ایک خوبصورت نظارہ تھا۔ ہر عالمی ایونٹ میں شاندار کارکردگی اور فائنل تک رسائی کے بعد وہاں ملنے والی شکستوں نے سری لنکا کے شائقین کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچا دیا تھا، اسی سے ظاہر ہےکہ سری لنکا گزشتہ دونوں عالمی کپ ٹورنامنٹس کے فائنل تک بھی پہنچا اور دونوں میں شکست کھائی۔ اب ان حالات میں کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیسا اہم ٹورنامنٹ سر پرکھڑا ہے ٹیم کا ایشیا کپ جیتنا بہت نیک شگون لگتا ہے اور عین ممکن ہے کہ ٹی ٹوئنٹی طرز کی عالمی نمبر ایک ٹیم اگلے ماہ ٹی ٹوئنٹی کا عالمی اعزاز بھی جیت لے۔
اگر سری لنکا کے نقطہ نظر سے نہ بھی دیکھیں تو ایشیا کپ ایک یادگار ٹورنامنٹ تھا۔ افتتاحی مقابلے سے جو سنسنی خیزی شروع ہوئی وہ آخر تک برقرار رہی اور اس دوران چند ایسے میچز بھی ہوئے جو شائقین کرکٹ کو مدتوں یاد رہیں گے۔
اپنی 30 سالہ تاریخ میں ایشیا کپ ہمیشہ ایک لو-پروفائل ٹورنامنٹ رہا ہے۔ اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ ایشیا کی سب سے بڑی دونوں کرکٹ قوتیں بھارت اور پاکستان کبھی اس ٹورنامنٹ کی میزبانی کے لیے صدق دل سے راضی نہیں ہوئیں اور تین دہائیوں پر محیط تاریخ میں صرف ایک، ایک بار ایشیا کپ کی میزبانی کا شرف حاصل کیا۔ 2014ء میں بھی یہ ٹورنامنٹ بھارت میں طے تھا لیکن اس نے عین وقت پر میزبانی سے انکار کیا اور یوں بنگلہ دیش کو موقع مل گیا کہ وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیسے اہم ٹورنامنٹ سے قبل ایشیا کپ منعقد کرکے امن و امان کے حوالے سے اٹھنے والے خدشات کا عملی جواب دے۔
ایشیا کپ 2014ء کے تین مقابلے ایسے تھے جو ہمیشہ ذہنوں میں رہیں گے ایک پاک-بھارت مقابلہ جو پاکستان نے اعصاب شکن معرکہ آرائی کے بعد ایک وکٹ سے جیتا۔ پھر پاکستان و بنگلہ دیش کا اہم مقابلہ جس میں فتح کے ساتھ پاکستان فائنل تک پہنچا اور تیسرا بنگلہ دیش اور افغانستان کا مقابلہ جہاں نوآموز افغانستان نے فتح حاصل کرکے بین الاقوامی کرکٹ میں اپنی آمد کا پہلا حقیقی اظہار کیا۔
پاک-بھارت مقابلے کو 1986ء کے آسٹریلیشیا کپ فائنل کے بعد تاریخ کا بہترین مقابلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ سنسنی خیزی کی تمام حدوں کو توڑ دینے والے اس مقابلے میں بھارت فتح سے صرف ایک وکٹ کے فاصلے پر تھا کہ شاہد آفریدی نے روی چندر آشون کو دو چھکے رسید کرکے بازی پلٹ دی اور پھر یادگار فتح کے بعد شاید پاکستانی کرکٹ شائقین کو رات بھر خوشی سے نیند نہیں آئی ہوگی۔
افغانستان کی بنگلہ دیش پر فتح کو شاید چند لوگ اپ سیٹ نہ قرار دیں لیکن بین الاقوامی کرکٹ میں وسیع تجربہ رکھنے کے بعد بنگلہ دیش کا ایسی ٹیم سے ہار جانا جو ٹیسٹ اہلیت رکھنے والے کسی بھی ملک کے خلاف اس کا محض چوتھا مقابلہ تھا، اپ سیٹ نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ پھر یہ بھی ملحوظ خاطر رکھیں کہ بنگلہ دیش عموماً اپنے میدانوں پر بہت سخت حریف ثابت ہوتا ہے، اور یہ بات نیوزی لینڈ سے بہتر کون جانتا ہوگا؟، اور گزشتہ ایشیا کپ میں بھی اس نے شاندار کارکردگی دکھاتےہوئے فائنل تک رسائی حاصل کی تھی۔
گو کہ بنگلہ دیش نے پاکستان کے خلاف بہت ہاتھ پیر مارے اور افغانستان کے خلاف شکست کا داغ دھونے کی بھرپور کوشش کی لیکن شاہد آفریدی آڑے آ گئے اور پاکستان نے 327 رنز کے ریکارڈ ہدف کا تعاقب کرلیا۔
ایک یادگار ٹورنامنٹ کے بعد اب ایشیائی شائقین کی نگاہیں ایک مرتبہ پھر سرزمین بنگال پر جمی ہیں، جہاں چند روز بعد ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی صورت میں سال کا اہم ترین ٹورنامنٹ کھیلا جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا سری لنکا ویسٹ انڈیز سے یہ اعزاز چھین کر خود کو حقیقی عالمی نمبر ایک ثابت کر پائے گا؟