حب الوطنی کا نیا پیمانہ: کرکٹ

1 1,066

یہ بحث طلب معاملہ ہے کہ کرۂ ارض پر بنی نوع انسان کا پہلا پیشہ کیا تھا، البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیاست ضرور ان ابتدائی پیشوں میں شامل ہوگا. سیاست کا اثر تمام شعبہ ہائے زندگی پر ہے ، تو کرکٹ اس سے کیسے پاک رہ سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں تو کرکٹ اور سیاست کا تعلق انڈین نیشنل کانگریس کی تاریخ سے بھی پرانا ہے۔ رام چندر گاہا کی کتاب "ماضی و حال" میں ایک پورا مضمون "نوآبادیاتی ہند میں کرکٹ اور سیاست" کے عنوان سے موجود ہے۔ 'چولی اور دامن' کے اس ساتھ کا آغاز اکتوبر 1881ءمیں پیش آنے والے ایک واقعے سے ہوتا ہے جب مقامی ہندوستانیوں نے گورنر بمبئی کو ایک درخواست دی تھی، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مقامی افراد کو پیریڈ گراؤنڈ، بمبئی میں کھیلنے کی اجازت دی جائے۔

کرکٹ تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہیں جن میں سیاست نے کھیل پر اثرات دکھائے ہیں (خاکہ: Paneendra)
کرکٹ تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہیں جن میں سیاست نے کھیل پر اثرات دکھائے ہیں (خاکہ: Paneendra)

آج مختلف ممالک کے کرکٹ چلانے کے ذمہ دار بورڈز بھی سیاسی اثر و رسوخ تلے رہنے کی تاریخ رکھتے ہیں۔ حکمران جماعت یا سربراہ مملکت بنگلہ دیش، پاکستان اور سری لنکا میں ان بورڈز کے ذمہ داران کا تقرر کرتے ہیں۔ کرکٹ معاملات کے ان ذمہ داروں کی کھیل سے آشنائی بس اس قدر ہوتی ہے کہ انہیں حیرانگی ہوتی ہے کہ ہر کھلاڑی کو مرد میدان کا اعزاز کیوں نہیں ملتا۔

تاریخ کرکٹ پر ریاست اور سیاست کے اثرورسوخ کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ جیسا کہ چین عالمی کپ 2007ء کی تیاری کے دوران "سیاسی سنچری" بنانے کے لیے ویسٹ انڈیز میں سرمایہ کاری کرتا ہے، برطانیہ 2008ء میں زمبابوے سے باہمی تعلقات کا خاتمہ کرتا ہے اور یہ دونوں مثالیں تو تازہ ہی ہیں۔ پاکستان اور بھارت "کرکٹ ڈپلومیسی" کی ڈھائی دہائیوں پر محیط تاریخ رکھتے ہیں، جہاں کرکٹ آمادہ بر جنگ ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں مدد دے رہی ہے۔

ایک دلچسپ حوالہ انگلستان و آسٹریلیا کی ایشیز سیریز کا مشہور باب "باڈی لائن سیریز" بھی ہے جب میدان میں کھلاڑیوں کی حرکات نے آسٹریلیا اور انگلستان کے تعلقات میں سخت تناؤ پیدا کیا ، جسے دوسری جنگ عظیم کا باہمی تعاون ہی کم کرسکا۔

لیکن کرکٹ پر سیاسی اثرات کا سب سے بھیانک روپ جنوبی افریقہ کی "نسل پرست حکومت" تھی۔ 1969ء میں ایم سی سی نے جنوبی افریقہ کے خلاف مقابلے میں باسل ڈی اولیویرا کو انگلستان کی نمائندگی سے صرف اس لیے محروم رکھا کہ جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے اس سیاہ فام کھلاڑی کی شمولیت سے جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت نہ ناراض ہوجائے۔ 1982ء میں ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ نے نیوزی لینڈ کو انتباہ دیا کہ دورۂ ویسٹ انڈیز کے لیے ان کی ٹیم کا خیرمقدم نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس وقت جنوبی افریقہ کی ایک کثیر نسلی رگبی ٹیم نیوزی لینڈ کے دورے پر تھی۔ اسی ماحول کے دوران 1982ء میں ہی حکومت بھارت نے انگلستان کو دورۂ بھارت کی اجازت دی حالانکہ انگلش میں دو کھلاڑی ایسے تھے جن کا جنوبی افریقی کرکٹ سے تعلق تھا اور وہ اپنے ملک کے نسل پرستانہ نظام کے مخالف تھے۔ اس اقدام پر بھارتی حکومت کو خاصا سراہا بھی گیا تھا اور وزڈن کے لیے لکھے گئے مضمو ن میں والٹر ہیڈلی نے لکھا:

"کرکٹ، بلکہ تمام کھیلوں کو، محترمہ اندرا گاندھی اور ان کی حکومت کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے جنوبی افریقہ کے امتیازی قوانین کی مخالفت کی اور ساتھ ہی باور کرایا کہ اس کی سزا کھلاڑیوں اور ان کے پرستاروں کو نہیں ملنی چاہیے۔ بھارت نے ایک عظیم مثال قائم کی ہے، جس کے نقش قدم پر چلا جائے تو بالخصوص کرکٹ اور بالعموم تمام کھیلوں کے حوالے سے بیشتر مسائل حل ہوسکتے ہیں۔"

کرکٹ تاریخ میں ایسے کئی مزید واقعات ہیں جن میں حکومتوں یا سیاسی گروہوں کی جانب سے ایسا ماحول تخلیق کیا گیا جس نے کھیل اور اس کے مزاج کو بدل کر رکھ دیا۔ ان میں سے ایک بہت ہی مضحکہ خیز قدم گزشتہ ہفتے حکومت بنگلہ دیش نے اٹھایا، جس نے اپنے شہریوں کو پابند کیا کہ وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014ء کے مقابلوں کے دوران اپنے ملک کے علاوہ کسی اور ملک کے جھنڈے لے کر میدان میں نہ آئیں۔ ویسے اس "قانون" کا سنجیدہ اطلاق ہو جائے تو میرے لیے تو بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا کیونکہ میں مانچسٹر یونائیٹڈ فٹ بال کلب کا پرستار ہوں لیکن میری رہائش لندن کے علاقے ویسٹ ہیم میں ہے۔

تفنن برطرف، لیکن بنگلہ دیش کا یہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے، اتنے بڑے بین الاقوامی ایونٹ کی میزبانی اور اس کے بعد حکومت وقت کا ایسا رویہ منافقانہ ہی کہلایا جا سکتا ہے۔ ایسے قدم اٹھانے سے پہلے جذبات کو بالائے طاق رکھنا چاہیے تھا لیکن اب تو اس فیصلے پر وضاحت کرنا لازمی ہوچکا ہے۔

چند سال قبل برطانوی کنزورویٹو پارٹی کے رکن جناب نورمن ٹیبٹ نے جزائر غرب الہند اور جنوبی ایشیاء سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کے لیے امیگریشن کے عمل میں ایک "کرکٹ ٹیسٹ" شامل کرنے کا خیال پیش کیا تھا۔ ٹیبٹ کا کہنا تھا کہ تارکین وطن کی برطانیہ سے وفاداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے آبائی وطن کے خلاف انگلستان کی ٹیم کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں۔ برطانیہ میں تو اس خیال کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ بنگلہ دیش نے حب الوطنی ناپنے کا "نیا پیمانہ" ڈھونڈ لیا ہے۔