بنگلہ دیش کا سپر 10 میں مایوس کن آغاز، 73 رنز کی بدترین شکست
بنگلہ دیش ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے اہم مرحلے کے آغاز پر ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں بدترین شکست سے دوچار ہوکر قوم کو یوم آزادی کا تحفہ نہیں دے سکا۔ دفاعی چیمپئن کے خلاف 'ٹائیگرز' کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی اور نتیجہ 73 رنز کی بھاری شکست کی صورت میں نکلا، جس سے نہ صرف رن ریٹ کو بہت سخت نقصان پہنچا ہے بلکہ اب میزبان کے لیے ضروری ہوچکا ہے کہ وہ آئندہ مقابلوں میں لازمی فتوحات سمیٹے اور سیمی فائنل کے امکانات کو روشن رکھے۔
ملک کے یوم آزادی، 26 مارچ، سے ایک روز قبل میرپور، ڈھاکہ میں کھیلے گئے مقابلے میں ہزاروں بنگلہ دیشی تماشائی میدان میں اپنی ٹیم کے حوصلے بلند کرنے کے لیے موجود تھے اور جس طرح بنگلہ دیشی باؤلرز ابتدائی ویسٹ انڈین بلے بازوں کو باندھ کر رکھا، اس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ آج ویسٹ انڈیز کو سخت حالات کا سامنا کرنا ہوگا لیکن بنگلہ دیشی فیلڈرز کی انتہا درجے کی نااہلی اور باؤلرز کی جانب سے فاضل رنز کی بے قابو ہوتی تعداد نے ویسٹ انڈیز کو 171 رنز کے بڑے مجموعے تک پہنچا دیا۔
اس بڑے ہدف کے تعاقب میں جس طرح بنگلہ دیش کے بلے باز بالخصوص اسپن باؤلنگ کے سامنے ڈھیر ہوئے، اس سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ عالمی کپ 2011ء کی یادیں تازہ ہو رہی ہیں۔ جب ویسٹ انڈیز کے خلاف اسی شیر بنگلہ اسٹیڈیم میں بنگلہ دیش کی ٹیم 58 رنز پر ڈھیر ہوگئی تھی۔ بالکل اسی طرح آج بھی ابتداء سے لے کر آخر تک کوئی ایک بلے باز بھی جم نہیں سکا یہاں تک کہ 98 رنز پر بساط لپیٹ دی گئی۔
کپتان مشفق الرحیم 22 رنز کے ساتھ واحد قابل ذکر بلے باز رہے جن کی باری کا خاتمہ ہم منصب ڈیوین براوو کے ایک شاندار کیچ نے کیا۔ اگر آخر میں مشرفی مرتضیٰ 19 رنز نہ بناتے تو بنگلہ دیش آج اپنے ٹی ٹوئنٹی تاریخ کے کم ترین مجموعے 78 سے بھی پہلے آل آؤٹ ہوجاتا۔ علاوہ ازیں 73 رنز کی شکست بنگلہ دیش کی ٹی ٹوئنٹی تاریخ کی دوسری بدترین ہار بھی ہے۔ اس سے قبل بنگلہ دیش 2008ء میں پاکستان کے ہاتھوں 103 رنز کی ریکارڈ ہار سہہ چکا ہے۔
ویسٹ انڈیز کی جانب سے سیموئل بدری نے کمال کی باؤلنگ کی اور اپنے 4 اوورز میں 15 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کیں جو نہ صرف ان کے کیریئر کی بلکہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں کسی بھی ویسٹ انڈین باؤلر کی بہترین کارکردگی ہے۔ ان کے علاوہ کرشمار سنتوکی نے تین، آندرے رسل نے دو اور سنیل نرائن نے ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔
قبل ازیں گو کہ ویسٹ انڈیز بنگلہ دیش کے باؤلرز پر مکمل طور پر حاوی نہ آ سکا لیکن ڈیوین اسمتھ کی 43 گیندوں پر 72 رنز کی طوفانی اننگز اور اس پر بنگلہ دیشی فیلڈرز کی فیاضی کی بدولت 171 رنز کا بڑا مجموعہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
بنگلہ دیش کے باؤلرز نے نہ صرف فاضل رنز دیے، جن میں 7 وائیڈز اور ایک نو بال بھی شامل تھی، بلکہ فیلڈرز نے کم ا زکم 20 رنز مس فیلڈنگ کی صورت میں ویسٹ انڈیز کو عطیہ کیے۔ ٹی ٹوئنٹی جیسے فارمیٹ میں جہاں ایک، ایک رن فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے، اتنی زیادہ فیاضی کا نتیجہ شکست کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔ علاوہ ازیں بنگلہ دیشی نے کیچ پکڑنے کے کئی مواقع بھی گنوائے۔
بہرحال، ڈیوین اسمتھ نے ویسٹ انڈیز کی جانب سے وہ فریضہ انجام دیا جو ہمیشہ کرس گیل کے کاندھوں پر ہوتا ہے۔ سہاگ غازی کے ایک ہی اوور میں چار مسلسل چوکے لگانے والے اسمتھ کی اس اننگز کی بدولت بارہویں اوور میں ویسٹ انڈیز کا اسکور تہرے ہندسے کو چھونے والا تھا۔ اگر وہ اس موقع پر پویلین نہ سدھارتے تو شاید ویسٹ انڈین اننگز 200 کا ہندسہ عبور کرجاتی۔ بہرحال، ان کی تین چھکوں اور 10 چوکوں سے مزین اننگز ویسٹ انڈیز کو اس مقام تک ضرور پہنچا گئی جہاں بعد ازاں بری کارکردگی کے باوجود ویسٹ انڈیز 171 رنز حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
دن کی سب سے مایوس کن کارکردگی کرس گیل کی تھی۔ جن سے بہت بھاری توقعات وابستہ ہیں لیکن بھارت کے خلاف ناکامی کے بعد وہ یہاں بنگلہ دیش کے مقابل بھی بجھے بجھے دکھائی دیے۔ اگر آخری لمحات میں کچھ چوکے چھکے نہ لگاتے تو شاید ان کا اسٹرائیک ریٹ 100 رنز تک بھی نہ پہنچتا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ پہلے اوور سے لے کر 19ویں اوور تک کریز پر موجود رہے اور 48 گیندوں کا سامنا بھی کیا لیکن صرف 48 رنز ہی بنا پائے جو کم از کم گیل کے شایان شان نہیں ہے۔ اگر گیل کی 30 رنز سے زیادہ کی اننگز کو معیار بنایا جائے تو یہ ان کے کیریئر کی سست ترین اننگز تھی۔
ویسٹ انڈیز نے اننگز کے آخری اوور میں چار وکٹیں گنوائیں جن میں مارلن سیموئلز 18 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے جبکہ آندرے رسل، ڈیوین براوو اور دنیش رامدین صفر کی ہزیمت کے ساتھ میدان سے لوٹے۔ ڈیرن سیمی 5 گیندوں پر 14 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔
بنگلہ دیش کی جانب سے الامین حسین نے 4 اوورز میں 21 رنز دے کر تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ ایک، ایک وکٹ محمود اللہ، شکیب الحسن اور ضیاء الرحمٰن کو ملی۔
ڈیوین اسمتھ کو دن کی بہترین اننگز کھیلنے پر مرد میدان کا اعزاز دیا گیا۔
بنگلہ دیش کے لیے اب معاملات مزید گمبھیر ہوگئے ہیں۔ ابتدائی مرحلے میں ہانگ کانگ کے خلاف مایوس کن شکست کے بعد اب سپر 10 میں پہنچتے ہی کراری شکست نے اسے دیوار سے لگا دیا ہے۔ اس صورتحال میں کھلاڑی کیا کر دکھاتے ہیں، اس کا اندازہ 30 مارچ کو پاکستان کے خلاف میچ سے ہوگا۔