"بہت بے آبرو ہوکر" انگلستان نیدرلینڈز سے پھر ہار گیا

5 1,207

نیدرلینڈز نے 'دیرینہ دشمن' انگلستان کے خلاف ایک اور شاندار فتح حاصل کرتے ہوئے اس کے پرانے زخم تازہ کردیے۔ گروپ 1 میں اپنے آخری مقابلے میں نیدرلینڈز نے انگلستان کو 45 رنز کے واضح مارجن سے شکست دے کر ٹی ٹوئنٹی 2014ء میں اپنے سفر کا اختتام شایان شان انداز میں کیا اور یوں انگلستان کے سوچنے کےلیے بہت سے سوالات چھوڑ دیے۔

مدثر بخاری نے ہیلز اور لمب سمیت تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور مرد میدان قرار پائے (تصویر: AFP)
مدثر بخاری نے ہیلز اور لمب سمیت تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور مرد میدان قرار پائے (تصویر: AFP)

جب ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا آغاز ہوا تھا تو ماہرین کی رائے تھی کہ قابل ذکر ٹیموں میں کمزور ترین دستہ انگلستان کا ہے اور اس کے اعزاز جیتنے کے امکانات 20 فیصد بھی نہیں ہیں۔ لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف ٹورنامنٹ کے پہلے مقابلے میں اگر بارش آڑے نہ آتی تو شاید انگلش باؤلرز 172 رنز کا باآسانی دفاع کرلیتے۔ البتہ جس کے دل میں انگلستان کے بارے میں ذرہ برابر بھی وہم و گمان تھا وہ سری لنکا کے خلاف مقابلے میں ختم ہوگیا۔ 190 رنز کے ریکارڈ ہدف کا تعاقب آخری اوور میں کرکے انگلستان نے اپنی اہلیت ثابت کر دکھائی لیکن ……. اس کے بعد "دماغ کی بتی بجھ گئی"! جنوبی افریقہ کے خلاف 197 رنز کے ہدف کے تعاقب میں ناکامی نے انگلستان کو اعزاز کی دوڑ سے باہر کردیا اور شاید اس شکست کا غم ہی تھا کہ آج نیدرلینڈز بھی اس بے حوصلہ ٹیم کو روندتا ہوا تاریخی فتح سمیٹ گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی کرکٹ میں انگلستان اور نیدرلینڈز دو مرتبہ آمنے سامنے آئے ہیں اور دونوں بار فتح ڈچ کھلاڑیوں کو نصیب ہوئی ہے۔ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009ء کے افتتاحی مقابلے میں لارڈز میں 4 وکٹوں سے جیتنے والے نیدرلینڈز نے آج بھی کمال کر دکھایا اور 134 رنز کے معمولی ہدف کا کامیابی سے دفاع کیا۔

ٹورنامنٹ کے ابتدائی مقابلوں میں بیس اوورز میں 172، 190 اور 193 رنز بنانے والی انگلش بیٹنگ لائن اپ آج ڈچ باؤلرز کی نپی تلی باؤلنگ کے سامنے بالکل بے بس نظر آئی۔ حالت یہ رہی کہ تین کھلاڑیوں کے علاوہ کوئی دہرے ہندسے میں بھی نہ پہنچ پایا اور سب سے بڑی انفرادی اننگز بھی محض 18 رنز کی رہی جو روی بوپارا نے کھیلی۔

نیدرلینڈز کی جانب سے آج کے ہیرو مدثر بخاری تھے، جنہوں نے اوپنرز ایلکس ہیلز اور مائیکل لمب کے علاوہ کپتان اسٹورٹ براڈ کی وکٹ بھی حاصل کی اور بعد ازاں میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔

قبل ازیں انگلستان کی جانب سے دعوت ملنے پر نیدرلینڈز نے روایتی دھواں دار آغاز کیا اور اسٹیفن مائی برگ اور ویزلے باریسی کی بہترین بیٹنگ کی بدولت 11 اوورز میں صرف ایک وکٹ پر 84 رنز بنا لیے۔ لیکن اس کے بعد روی بوپارا اور اسٹورٹ براڈ کی باؤلنگ نے اسے پچھلے قدموں پر دھکیل دیا۔ آنے والے بلے بازوں میں سے کوئی بھی دہرے ہندسے میں بھی داخل نہ ہوسکا اور آخری 8 اوورز میں 49 رنز کے اضافے کے ساتھ نیدرلینڈز بمشکل 133 رنز تک پہنچ پایا۔

براڈ نے تین جبکہ کرس جارڈن اور روی بوپارا نےایک، ایک وکٹ حاصل کی۔

اس مرحلے پر کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ انگلستان 134 رنز کے مجموعے تک بھی نہ پہنچ پائے گا لیکن سازگار حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اور بہترین لائن و لینتھ پر باؤلنگ کرنے کے ذریعے ڈچ باؤلرز نے ثابت کیا کہ اس ہدف کا دفاع بھی کیا جا سکتاہے۔ نیدرلینڈز کی باؤلرز کی عمدہ کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پھینکے گئے 17.4 اوورز میں انہوں نے صرف 4 چوکے کھائے۔

علاوہ ازیں آج دونوں ٹیموں کے درمیان فرق فیلڈنگ کا بھی رہا۔ انگلستان نے دو آسان کیچز گنوائے اور اس کے علاوہ ایک مرتبہ وکٹ کیپر جوس بٹلر نے رن آؤٹ کرنے کا موقع بھی ضائع کیا۔

نیدرلینڈز کے کپتان پیٹر بورین نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے سپر10 مرحلے میں داخل ہوتے ہی کہا تھا کہ ایک کارکردگی ہم دکھائیں گے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف وہ فتح کے بہت قریب پہنچے لیکن ناتجربہ کاری آڑے آ گئی اور بالآخر اپنے حتمی مقابلے میں انہوں نے اہلیت ثابت کر دکھائی اوربلاشبہ نیدرلینڈز کی کارکردگی اس مرتبہ میزبان بنگلہ دیش سے بھی بہت اچھی رہی۔

اور ہاں، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2010ء کے ہیرو اور چند ہفتے قبل ٹیم سے نکالے گئے کیون پیٹرسن کہیں بیٹھے اس تمام صورتحال پر مسکرا رہے ہوں گے!