عالمی کپ 2011ء کے چند مقابلے فکس تھے: برطانوی اخبار کا دعویٰ
ایک ایسے مرحلے پر جب دنیائے کرکٹ کا ایک اہم ترین ٹورنامنٹ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی صورت میں بنگلہ دیش میں جاری ہے، برطانیہ کے معروف مصالحہ اخبار 'ڈیلی میل' نے یہ دعویٰ کرڈالا ہے کہ عالمی کپ 2011ء کے چند مقابلے فکس تھے یعنی ان کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ تھا۔
اخبار نے بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے اینٹی کرپشن اینڈ سیکورٹی یونٹ (اے سی ایس یو) کی ایک خفیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی کپ 2011ء کے علاوہ اسی سال کھیلی گئی انڈین پریمیئر لیگ کے چوتھے سیزن کے کچھ مقابلے بھی شفاف نہیں تھے۔
اے سی ایس یو نے مذکورہ رپورٹ مرتب کرنے کے لیے کل 470 مقابلوں اور 200 سے زیادہ پریکٹس سیشنوں کا احاطہ کیا۔
مبینہ خفیہ رپورٹ میں اس غیر قانونی نیٹ ورک کے ماسٹرمائنڈ کا نام صرف 'ایس بی' لکھا گیا ہے اور اے سی ایس یو 2010ء کے بعد سے اس پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ یہ شخص کھلاڑیوں تک رسائی کی متعدد کوششیں کرتا پایا گیا۔ بعد ازاں ان کھلاڑیوں کو اس سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانچ موبائل نمبروں کی شناخت اور ان کی بلنگ تفصیلات ہتھیا کر ایس بی کی ہر حرکت اور کاروباری تفصیلات پر نظر رکھی گئی، یہاں تک کہ 2011ء میں اس کے دبئی اور سری لنکا کے دورے پر بھی۔
اس کے علاوہ وی جے کے کوڈ نیم کے ساتھ ایک اور ایجنٹ کی بھی شناخت کی گئی جو ایک سال سے زیادہ لندن میں کام کرتا رہا۔ اے سی ایس یو کا ماننا ہے کہ وہ دو افراد – ممکنہ طور پر کھلاڑیوں- کے ساتھ رابطے میں تھا انہوں نے وی جے اور اس کے کارندوں کو میچ کی معلومات دیں۔ ان سٹے بازوں کے ساتھ مختلف ٹیموں کے چند انتہائی نامور کھلاڑی رابطے میں رہے۔
41 صفحات پر مشتمل رپورٹ نے 'جے ایس' کو ملک کے بڑے سٹے بازوں میں سے ایک قرار دیا، جس کے خلاف بھارت اور برطانیہ دونوں میں مقدمات بھی درج ہیں۔ جے ایس نے مبینہ طور پر ایک سرفہرست بین الاقوامی کھلاڑی کے بھائی کے ساتھ رابطہ کیا اور اسے میچ ضائع کرنے کے لیے 50 لاکھ روپے کے برابر رقم دینے کی پیشکش کی۔
ان انکشافات کی بدولت بنگلہ دیش اور زمبابوے کے درمیان 2010ء کی ایک روزہ سیریز اے سی ایس یو کی کڑی نظروں میں آئی۔ ان مقابلوں کے لیے جے ایس، کینیا کے ایک سابق کپتا ن اور زمبابوے میں مقیم ایک سٹے باز کے درمیان پانچ ماہ سے زیادہ عرصے تک رابطہ رہا اور مبینہ طور پر مقابلے فکس کرنے کے لیے 115 سے زیادہ کالز کی گئیں۔
اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ اس تحقیقات کو رازدارانہ رکھنے کے لیے اے سی ایس یو نے سٹے بازوں کی حقیقی شناخت کو آئی سی سی بورڈ تک سے خفیہ رکھا ہے۔ متعدد سٹے باز اس وقت اداروں کی نظروں میں ہیں اور اے سی ایس یو کا ماننا ہے کہ یہ رپورٹ محض ایک جھلک ہے۔