معافی لے لو، استعفیٰ نہیں!

0 1,045

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کے سفر کا اختتام انتہائی مایوس کن انداز میں ہوا۔ ٹورنامنٹ کی تاریخ میں ہمیشہ کم از کم سیمی فائنل تک پہنچنے والی ٹیم پہلی بار گروپ مرحلے ہی میں باہر ہوگئی اور یوں ویسٹ انڈیز اعزاز کے دفاع کے لیے مزید ایک قدم آگے بڑھ گیا۔ لیکن بدترین شکست کے باوجود کپتان محمد حفیظ ذمہ داری قبول کرنے اور استعفیٰ دینے سے انکاری ہیں۔

محمد حفیظ کا بیان ہماری مجموعی قومی ذہنیت کا عکاس ہے (تصویر: AFP)
محمد حفیظ کا بیان ہماری مجموعی قومی ذہنیت کا عکاس ہے (تصویر: AFP)

وطن عزیز میں جہاں ایک ٹرین کے ایک بڑے حادثے میں سینکڑوں افراد کی جانیں چلی جائیں تب بھی وفاقی وزیر ریلوے یہ کہہ کر ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں کہ " اس ٹرین کا ڈرائیور میں نہیں تھا"، وہاں حفیظ کا ایسا بیان کوئی غیر متوقع بھی نہیں۔ یہ ہماری مجموعی قومی ذہنیت ہی کا عکاس ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اگر شکست کے تین ذمہ داروں کا تعین کیا جائے تو ان میں سے ایک 'پروفیسر' خود ہوں گے۔

محمد حفیظ کا کہنا ہے کہ وہ عوام سے معذرت ضرور طلب کرتے ہیں ، لیکن شکست کی تن تنہا ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔ کرکٹ ایسا کھیل ہے جو ٹیم کھیلتی ہے، وہاں فتح و شکست صرف ایک شخص کی کارکردگی سے نہیں ہوتی بالکل اس طرح ذمہ داری بھی انفرادی طور پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ یہ اجتماعی کھیل ہے اور ہم پاکستان کی شکست کے اجتماعی ذمہ دار ہیں، ٹیم انتظامیہ سے لے کر کھلاڑیوں تک سب۔

گو کہ پاکستانی کپتان نے کامران اکمل اور شعیب ملک کا دفاع کیا لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان دونوں کی شمولیت سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، جس کا اندازہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے آغاز سے قبل ہی تھا۔ کیونکہ ان دونوں کو شامل کرنے کے لیے دو ایسے نوجوانوں کو باہر بیٹھنا پڑتا تھا جو اس تیز رفتار طرز کی کرکٹ میں اپنے گرم لہو کو آزما سکتے تھے۔

درحقیقت، پاکستان نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء میں سیمی فائنل شکست سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور تقریباً دو سال بعد جب دوبارہ اس اہم ٹورنامنٹ کو کھیلنے پہنچی تو بالکل وہی غلطیاں دہرائیں۔ جیسا کہ اہم مقابلے میں آخری اوورز میں باؤلرز کا زیادہ رنز دینا اور بعد ازاں ہدف کے تعاقب میں ہتھیار پھینک دینا۔ ایک، ایک مرحلہ ایسا تھا گویہ 2012ء کا پاک-لنکا سیمی فائنل ہی چل رہا ہو۔

ویسٹ انڈیز کے خلاف گروپ کے آخری مقابلے میں پاکستان 167 رنز کے تعاقب میں صرف 82 رنز پر ڈھیر ہوا اور یوں 84 رنز کی بدترین شکست کے ساتھ اعزاز کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔ خود محمد حفیظ نے چار مقابلوں میں صرف 55 رنز بنائے جبکہ ٹیم کے چند کھلاڑیوں کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی جنہیں درحقیقت اہلیت کے مطابق نہیں بلکہ نوازنے کے لیے کھلایا گیا تھا۔