کیا عالمی چیمپئن کا فیصلہ ٹاس پر ہوگا؟

7 1,039

بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے 2014ء کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی بنگلہ دیش میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور سب سے اہم چیز اس مرتبہ 16 ٹیموں کی شرکت تھی جن میں سے 8 سرفہرست ٹیمیں براہ راست 'سپر 10' مرحلہ کھیلنے کی حقدار قرار پائیں جبکہ بقیہ دو نشستوں کے لیے 8 ٹیموں کے درمیان ایک ابتدائی مرحلہ کھیلا گیا جہاں سے بنگلہ دیش اور نیدرلینڈز اہم مرحلے میں پہنچے لیکن اتنے بڑے ٹورنامنٹ کی میزبانی صرف دو شہروں کی سونپی گئی، ایک ڈھاکہ اور دوسرا چٹاگانگ۔

آسٹریلیا اور پاکستان ہدف کے تعاقب میں ڈھاکہ کے اسی میدان پر بالترتیب 86 اور 82 رنز پر ڈھیر ہوئے، جہاں سیمی فائنل اور فائنل کھیلے جانے ہیں (تصویر: AFP)
آسٹریلیا اور پاکستان ہدف کے تعاقب میں ڈھاکہ کے اسی میدان پر بالترتیب 86 اور 82 رنز پر ڈھیر ہوئے، جہاں سیمی فائنل اور فائنل کھیلے جانے ہیں (تصویر: AFP)

ڈھائی ہفتے کے مختصر عرصے میں ان دو میدانوں پر اب تک 32 مقابلے کھیلے جا چکے ہیں۔ 21 مارچ کو پاک-بھارت مقابلے کے ذریعے اہم مرحلے کی شروعات سے بھی پہلے ڈھاکہ اور چٹاگانگ میں 12 مقابلے کھیلے جا چکے تھے۔ بہرحال جب انہی میدانوں پر سپر 10 کا آغاز ہوا تو ابتدائی مقابلے بہت زیادہ ہائی-اسکورنگ رہے جیسا کہ سری لنکا-جنوبی افریقہ، پاکستان-آسٹریلیا، انگلستان-سری لنکا، آسٹریلیا-ویسٹ انڈیز اور انگلستان-جنوبی افریقہ لیکن اس کے بعد اچانک ہی حالات نے پلٹا کھایا اور ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیموں کی شامت آ گئی۔

سب سے پہلے 30 مارچ کو بھارت-آسٹریلیا مقابلے میں آسٹریلیا 160 رنز کے تعاقب میں صرف 86 رنز پر ڈھیر ہوا جبکہ اگلے ہی دن انگلستان نیدرلینڈز جیسے کمزور حریف کے خلاف 134 رنز کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا اور اس کی اننگز صرف 88 رنز پر تمام ہوئی۔ مزید تشویشناک بات یہ کہ 'کوارٹر فائنل' نما دونوں مقابلے، جن کے بارے میں توقع تھی کہ انتہائی سنسنی خیز ہوں گے، ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیموں کے لیے بھیانک خواب ثابت ہوئے۔ پہلے نیوزی لینڈ سری لنکا کے خلاف 120 رنز کے تعاقب میں 60 پر ڈھیر ہوا اور پھر پاکستان 166 رنز کے پیچھے دوڑتے ہوئے 82 رنز پر منہ کے بل گر گیا۔

یعنی کہ تین دن کے مختصر وقفے میں چار بہترین ٹیموں کے بلے باز سر دھڑ کی بازی لگا کر بھی ٹیم کو تہرے ہندسے میں نہ پہنچا سکے۔ آخر کیوں؟ یہ سوال ایسا ہے جو اب کافی ذہنوں میں کلبلا رہا ہے۔ یہ بات بجا کہ پاکستان کے بیٹسمین ہدف کے تعاقب میں کمزور ہیں اور ویسٹ انڈیز کے ڈیرن سیمی اور ڈیوین براوو کے 'بلّا چارج ' کے بعد نفسیاتی دباؤ میں آ گئے لیکن نیوزی لینڈ کو تو ایسی کسی صورتحال کا سامنا نہیں تھا وہ تو صرف 120 رنز کے ہدف کا تعاقب کررہا تھا اور ٹورنامنٹ میں اب تک ان کی کارکردگی بہت ہی شاندار رہی تھی۔ پھر نیدرلینڈز کے خلاف انگلستان کے ان بلے بازوں کا آل آؤٹ ہوجانا بھی سمجھ سے بالاتر ہے جنہوں نے سری لنکا کے خلاف 192 رنز کا ریکارڈ ہدف حاصل کیا تھا۔ آسٹریلیا جو پاکستان کے مقابلے میں آخری لمحے تک ڈٹا رہا، بھارت کے خلاف محض 86 رنز پر کیسے آؤٹ ہو گیا۔

دراصل اتنے بڑے ٹورنامنٹ کی میزبانی صرف دو میدانوں کو سونپی گئی۔ ایک ظہور احمد چودھری اسٹیڈیم، چٹاگانگ اور دوسرا شیر بنگلہ نیشنل اسٹیڈیم، میرپور، ڈھاکہ ۔ ان میدانوں میں بنائی گئی پچوں کو بارہا استعمال کیا گیا اور ان کی حالت ایسی ہوچکی ہے کہ معمولی مرمت کے بعد انہیں کھیلنے کے قابل تو بنا دیا جاتا ہے لیکن جب دوسری اننگز شروع ہوتی ہے تو ہدف کا تعاقب کرنے والے بلے بازوں کے لیے وہ بارودی سرنگوں سے اٹا ہوا میدان بن جاتی ہیں۔ پاکستان کو ایک طرف بھی رکھ دیں تو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور انگلستان اتنے کم درجے کی ٹیمیں نہیں کہ 100 رنز کے معمولی ہندسے کو بھی نہ پہنچ پائیں۔ ایک ٹیم کے ساتھ ایسا ہوتا تو سمجھ میں بھی آتا لیکن تین دن میں چار ٹیموں کے ساتھ یہ "حادثہ" ہوجانا حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔

شائقین کے ساتھ ساتھ ماہرین بھی حیران ہیں کہ 'یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا'؟ اور اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ابتدائی مقابلوں میں ہدف کے تعاقب کو بہتر جاننے والی ٹیمیں اب پہلے بلے بازی کو ترجیح دیں گی جیسا کہ ابھی گزشتہ چار مقابلوں میں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیموں نے باآسانی مقابلے جیتے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو یہ بدانتظامی کی اعلیٰ ترین مثال ہوگی کہ سال کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ کے اہم ترین تینوں مقابلوں کے فاتح کا فیصلہ ٹاس کے موقع پر ہی ہوجائے۔ بہرحال، رات ابھی باقی ہے، بات ابھی باقی ہے، دیکھتے ہیں کہ سیمی فائنل اور فائنل میں کیا ہوتا ہے