کیا جنوبی افریقہ آج نہیں ”چوکے“ گا؟
گزشتہ دو دہائیوں سے اگر آسٹریلیا کے بعد کسی کرکٹ ٹیم نے تسلسل کے ساتھ کارکردگی پیش کی ہے تو بلاشبہ وہ جنوبی افریقہ ہے۔ نسل پرستانہ حکومت کی وجہ سے طویل عرصے تک پابندی کا شکار رہنے کے بعد جب جنوبی افریقہ عالمی کرکٹ اکھاڑے میں واپس آیا تو 1992ء کا عالمی کپ اس کا پہلا امتحان تھا۔ پورے ٹورنامنٹ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پروٹیز سیمی فائنل تک پہنچے لیکن بارش اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئی اور وہ فائنل تک نہیں پہنچ پایا۔
یہاں اس سے داستان کا آغاز ہوتا ہے جس کی کڑیاں بالآخر آج ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014ء کے سیمی فائنل سے مل رہی ہیں جہاں اس کا مقابلہ ٹورنامنٹ میں اب تک ناقابل شکست رہنے والے بھارت سے ہے۔ ساتھ ہی ایک بہت بڑا سوال بھی جنوبی افریقہ کے سامنے ہے کیا کہ وہ ماضی سے چھٹکارہ پاکر اس مرتبہ کسی عالمی ٹورنامنٹ کے فائنل تک پہنچ پائے گا؟
جنوبی افریقہ 1992ء میں تو قسمت کی خرابی کو ذمہ دار ٹھہرا سکتا ہے لیکن اس کے بعد وہ ہمیشہ منزل سے دوگام کے فاصلے پر ڈھیر ہوتا رہا۔ 1996ء میں فیورٹ کی حیثیت سے پاک و ہند میں آیا اور شاندار کارکردگی دکھانے کے بعد کوارٹر فائنل میں کمزور ترین حریف ویسٹ انڈیز سے شکست کھا گیا۔ پھر 1999ء اور 2007ء کے عالمی کپ ٹورنامنٹس میں آسٹریلیا کے ہاتھوں سیمی فائنل جیتنے میں ناکامی اور 2011ء میں نیوزی لینڈ سے کوارٹر فائنل میں شکست۔ یہی مایوس کن روایت جنوبی افریقہ نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بھی برقرار رکھی۔ 2007ء میں اپنے ہی ملک میں ابتدائی تمام مقابلے جیتنے کے بعد اہم میچ میں بھارت کے ہاتھوں ہارا اور 2009ء میں سیمی فائنل میں پاکستان سے شکست کھانے کے بعد باہر ہوگیا۔
اب جنوبی افریقہ ایک مرتبہ پھر کسی عالمی ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل تک پہنچا ہے اور اس مرتبہ خلاف توقع خاصی جان لڑانے کے بعد اسے یہ منزل ملی ہے۔ سری لنکا کے ہاتھوں اولین مقابلے میں شکست کے بعد شاید ہی کسی ٹیم نے آئندہ مقابلوں میں اتنے مشکل حالات کا سامنا کیا ہو اور سرخرو ہو کر نکلی ہو۔ نیوزی لینڈ کے خلاف آخری اوور میں 7 رنز کا دفاع کرنے میں کامیابی، پھر نیدرلینڈز کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد زیر کرنا اور آخر میں انگلستان کو ٹھکانے لگا کر سیمی فائنل کی نشست پکی کرنا۔ جیتی ہوئی بازیاں ہارنے کی طویل تاریخ رکھنے والے جنوبی افریقہ نے خلاف توقع یہ مقابلے بہت ہی کم مارجن سے جیتے، نیوزی لینڈ کے خلاف دو رنز، نیدرلینڈز کے خلاف 6 اور انگلستان کے خلاف صرف تین رنز سے۔ ہر مرحلے پر اس نے اپنے اعصاب کو قابو میں رکھا۔ لیکن ان تین شاندار فتوحات کے بعد کیا وہ بھارت کے خلاف آج ویسی ہی کارکردگی دہرا پائے گا؟ یہ بہت بڑا سوال ہے جو جنوبی افریقہ کے سامنے ہے۔
دوسری جانب بھارت اس مرتبہ توقعات کا بوجھ لیے بغیر میدان میں آیا۔ ٹیم جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کے ناکام ترین دوروں سے لوٹی تو فکسنگ کے معاملات عدالتوں میں تھے اور بارہا کپتان مہندر سنگھ دھونی کا نام ذرائع ابلاغ میں زیر گردش آیا لیکن آفرین ہے دھونی کو، جنہوں نے سنگین حالات میں بھی اپنے اعصاب کو مضبوط رکھا اور ٹیم نے نہایت ہی شاندار کارکردگی دکھا کر سیمی فائنل میں جگہ بنائی۔ ہر ٹیم جو سیمی فائنل تک پہنچی، مختلف نشیب و فراز سے ہوتی ہوئی آئی، لیکن بھارت واحد ٹیم ہے جو جامع کارکردگی پیش کرکے اور تمام حریفوں کو چت کرنے کے بعد یہاں پہنچا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جنوبی افریقہ آج چوکرز کا داغ مٹانے میں کامیاب ہوتا ہے یا بھارت اپنی شاندار کارکردگی کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے فائنل میں جگہ پاتا ہے جہاں فاتح کا مقابلہ اتوار کو سری لنکا کے خلاف ہوگا۔