اپنی کچھار میں پاکستان کا تیسرا شکار
پاکستان کراچی میں شاندار فتح کے بعد اس مقام پر تھا کہ وہ ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز جیت کر گزشتہ دورے کی شکست کا بدلہ لے سکتا تھا۔ سیریز ایک-صفر سے پاکستان کے حق میں جھکی ہوئی تھی کہ دونوں دستے دوسرا مقابلہ کھیلنے کے لیے مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ پہنچے۔ پاکستان جیسے نووارد کے ہاتھوں مسلسل دو ٹیسٹ ہارنے کے بعد، جو کہ پاکستان نے ایک ویسٹ انڈیز میں ایک گزشتہ مقابلے میں جیتا تھا، ویسٹ انڈیز کے لیے ڈھاکہ ٹیسٹ بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا کیونکہ شکست کی صورت میں یہ مسلسل تیسری ہار تو ہوتی ہی، ساتھ ہی ویسٹ انڈیز سیریز سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا۔
کراچی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں زخمی ہونے والے حنیف محمد کی جگہ پاکستان نے علیم الدین کو موقع دیا جبکہ انتاؤ ڈی سوزا کی جگہ حسیب احسن کو کھلایا گیا۔ دوسری جانب ویسٹ انڈیز نے کونراڈ ہنٹے اور جیسوِک ٹیلر کی جگہ ایرک ایٹکنسن اور سونی رامادین کو شامل کیا۔
6 مارچ، 1959ء اور جمعہ کا مبارک دن جب ڈھاکہ کے بنگابندھو اسٹیڈیم میں تاریخ کا تیسرا ٹیسٹ مقابلہ شروع ہونے لگا جہاں مہمان کپتان گیری الیگزینڈر نے گیندبازی کے لیے سازگار ماحول کو دیکھتے ہوئے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا اور جب پاکستان محض 22 کے مجموعے پر اعجاز بٹ، علیم الدین، سعید احمد، امتیاز احمد اور وزیر محمد کی وکٹوں سے محروم ہوگیا تو الیگزینڈر کے چہرے پر بڑی مسکراہٹ نظر آئی اور گویا دل میں بھی بے انتہا اطمینان محسوس کیا ہوگا۔ پاکستان کے بلے باز ویزلے ہال کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے ایک لحظہ بھی جمنے نہ پائے اور مذکورہ بالا پانچویں کھلاڑی دہرے ہندسے میں پہنچے بغیر پویلین لوٹے۔
یہ وقت تھا مزاحمت کا، اور یہ ذمہ داری آنے والے بلے بازوں میں سے کسی کو تو نبھانی تھی۔ والس میتھیس اور شجاع الدین نے ٹھان لیا اور دونوں نے انتہائی نازک صورتحال میں 83 رنز کی رفاقت سے پاکستان کو مکمل تباہی سے بچا لیا۔ شجاع الدین 26 رنز بنانے کے بعد بولڈ ہوئے تو پاکستان کا مجموعہ تہرے ہندسے کو عبور کرتے ہوئے 108 تک پہنچ چکا تھا۔ شجاع کے آؤٹ ہوجانے کے بعد حالانکہ کوئی بلے باز میتھیس کا اچھی طرح ساتھ نہ دے پایا لیکن پھر بوری انہوں نے فضل محمود، نسیم الغنی، محمود حسین اور حسیب احسن کے ساتھ مل کر کسی نہ کسی طرح اسکور کو 145 رنز تک پہنچا ہی دیا۔ میتھیس 64 رنز بنا کر ناقابل شکست میدان سے لوٹے۔
ویسٹ انڈیز کی جانب سے ویزلے ہال نے چار وکٹیں حاصل کیں، جبکہ رامادین نے تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔
آپ کو یادہوگا کہ اسی سیریز کے پہلے مقابلے میں ویسٹ انڈیز اپنی پہلی اننگز میں 146 رنز پر ڈھیر ہوا تھا اور بعد ازاں بھرپور کوشش بھی اسے مقابلے میں واپس نہ لا سکی۔ اب صورتحال بالکل ویسی ہی تھی، لیکن اس مرتبہ یہ پاکستان تھا جو 145 رنز پر آؤٹ ہوا تھا اور اگر اس مقام پر ویسٹ انڈیز پہلی اننگز میں ایک بڑا مجموعہ کھڑا کرکے بھاری برتری حاصل کرلیتا تو پاکستان کے نقطہ نظر سے نہ صرف میچ بلکہ سیریز بھی خطرے میں پڑ جاتی۔
پہلے دن کے آخری سیشن میں ویسٹ انڈین کپتان گیری الیگزینڈر نے جان ہالٹ اور روہن کنہائی کو اننگز کے آغاز کے لیے اس ہدایت کے ساتھ میدان میں بھیجا کہ وکٹ پر قیام کرنا ہے اور پاکستان پر جتنے رنز کا بوجھ لادا جا سکتا ہو، لادا جائے۔
پاکستان کے کپتان فضل محمود کو اپنی باؤلنگ صلاحیتوں پر اعتماد ضرور تھا لیکن بیٹنگ کارکردگی نے ٹیم کو دیوار سے لگا دیا تھا لیکن حالات اب بھی گیند بازی کے لیے پوری طرح سازگار تھے۔ اب 'اینٹ کا جواب پتھر' سے دینے کے لیے فضل اور ان کے ساتھی گیندبازوں کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری تھی اور اس کو خود فضل نے ہلکا کیا جنہوں نے محض چار رنز پر روہن کنہائی کو وزیر محمد کے ہاتھوں کیچ آؤٹ کراکر ویسٹ انڈیز کو پیغام دے دیا کہ پاکستان ہار نہیں مانے گا۔ پھر محمود حسین کے ہاتھوں جان ہالٹ کی وکٹیں بکھریں تو ویسٹ انڈیز صرف 19 پر اپنے دونوں افتتاحی بلے بازوں سے محروم ہوچکا تھا۔ نائٹ واچ مین کی حیثیت سے خود کپتان گیری الیگزینڈر ساتھی بلے باز گیری سوبرز کا ساتھ دینے کے لیے میدان میں اترے تاکہ ڈھاکہ میں ڈوبتے سورج کی کرنوں میں ٹیم کو فضل محمود اور ہمنواؤں کے قہر سے بچا سکیں۔ دونوں اس مقصد میں کامیاب رہے اور مزید کوئی وکٹ نہ گری، یہاں تک کہ پہلے دن کا کھیل ختم ہوا۔ ویسٹ انڈیز کا اسکور 46 رنز تھا اور سوبرز 22 اور الیگزینڈر 9 رنز کے ساتھ کریز پر موجود تھے۔
دوسرے دن کا آغاز ہوا، پاکستان کو اس شراکت داری کو ختم کرنے کی سخت صروری تھی اور ابھی دونوں بلے باز 10 رنز ہی جوڑ پائے تھے کہ فضل محمود کی گیند سوبرز کے پیڈ پر لگی اور امپائر نے انگلی فضا میں بلند کرکے انہیں پویلین کی راہ لینے کا پیغام دیا۔ کچھ ہی دیر بعد نسیم الغنی نے الیگزینڈر کو امتیاز کی مدد سے اسٹمپڈ کروا دیا۔ ویسٹ انڈیز 65 رنز پر چار وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا، لیکن ٹھہریے! اس کے بعد جو ہوا وہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے انوکھے واقعات میں سے ایک ہے۔
بھارت کو اسی کے میدانوں پر ناکوں چنے چبوانے والے بلے باز فضل محمود اور نسیم الغنی کے سامنے بالکل بے دست و پا دکھائی دیے اور کولی اسمتھ، ایرک ایٹکنسن اور ویزلے ہال بغیر کوئی رن بنائے فضل محمود کو وکٹ تھما گئے، جی ہاں! یہ چاروں بلے باز صفر پر آؤٹ ہوئے جبکہ دوسرے اینڈ سے جوئے سولومن اور لانس گبز بھی صفر کے ساتھ میدان سے لوٹے۔ صرف باسل بچر 11 بنا پائے اور ویسٹ انڈیز جو 65 رنز پر 4 وکٹوں سے محروم تھی، باسل کے انہی 11 رنز کے اضافے سے محض 76 رنز پر آل آؤٹ ہوگیا۔
فضل نے صرف 64 رنز دے کر 6 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ نسیم الغنی نے ان کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے تین وکٹیں سمیٹیں اور یوں پاکستان 69 رنز کی انتہائی قیمتی برتری دلادی۔ فضل نے اپنے کیریئر میں نویں مرتبہ اننگز میں پانچ یا زیادہ وکٹوں کا کارنامہ دہرایا اور پاکستان کو ایک مرتبہ پھر بالادست مقام پر پہنچا دیا۔
پہلی اننگز میں ناکام ہونے والے پاکستان کے بلے بازوں کو میچ کے دوسرے ہی دن ایک اور موقع ملا کہ وہ آگے بڑھیں اور میچ اور سیریز پر گرفت مضبوط کرلیں۔ لیکن ڈھاکہ کی فضاؤں اور وکٹ میں کچھ ایسا تھا کہ بلے بازوں کو سخت دشواری ہو رہی تھی۔ علیم الدین دوسری اننگز میں بھی بری طرح ناکام ہوئے اور صفر پر دھر لیے گئے۔ سعید احمد اور اعجاز بٹ نے صورتحال سنبھالنے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ 33 کے مجموعے پر سعید رامادین کی آف بریک سمجھنے میں ناکام ہوئے اور دوسرے اینڈ سے ایٹکنسن نے امتیاز اور وزیر محمد کو ٹھکانے لگا دیا۔ حد در جہ محتاط رویے کے باوجود اعجاز بٹ رامادین سے نہ بچ پائے اور یوں پاکستان سخت مشکل میں پھنس گیا۔ اسکور بورڈ پر صرف 71 رنز اور پانچ مستند بلے باز پویلین میں تھے۔
اس وقت جبکہ پاکستان کی مجموعی برتری 140 رنز تھی، والس میتھیس اور شجاع الدین ایک مرتبہ پھر نجات دہندہ بن کر آئے۔ دونوں نے اپنے اعصاب پر قابو رکھا اور ویسٹ انڈیز کے تیز باؤلرز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دوسرے دن کے اختتام تک مجموعے کو 120 تک پہنچا دیا۔ دونوں کی 49 رنز کی شراکت داری پاکستان کی برتری کو 189 رنز تک پہنچا چکی تھی اور میتھیس 36 اور شجاع 16 رنز کے ساتھ مقابلے کو تیسرے دن تک لے گئے۔
اتوار 8 مارچ کو مقابلے کا تیسرا دن شروع ہوا اور صبح کے نم موسم نے ان دونوں کو زیادہ دیر کریز پر ٹھہرنے نہ دیا۔ پہلے میتھیس کا دفاع ایٹکنسن کے سامنے ٹوٹا اور کچھ دیر بعد شجاع ویزلے ہال کا نشانہ بن گئے۔ 59 رنز کی مزاحمت کے خاتمے کے بعد ویسٹ انڈیز کو باقی بلے بازوں کو ٹھکانے لگانے میں دیر نہیں لگی۔ ہال نے نسیم الغنی، محمود حسین اور حسیب احسن کو بولڈ کرکے پاکستان کی دوسری اننگز کی بساط 144 رنز پر لپیٹ دی۔ میتھیس 45 رنز کی مزاحمت سے بھرپور اننگز کے ساتھ نمایاں رہے جبکہ شجاع الدین نے 17 رنز بنائے۔ جبکہ ویزلے ہال اور ایٹکنسن نے چار، چارجبکہ رامادین نے دو وکٹیں حاصل کیں۔
214 رنز کے تعاقب میں ویسٹ انڈیز کپتان الیگزینڈر خود جان ہالٹ کے ساتھ اننگز کا افتتاح کرنے کے لیے میدان میں اترے۔ سیریز بچانے کا مہمانوں کے پاس یہی آخری موقع تھا اور اب تک ہدف ان کے سامنے بالکل واضح تھا، ڈھائی دن سے اوپر کا کھیل باقی اور محض 214 رنز کا ہدف درپیش۔ لیکن ویسٹ انڈیز کے لیے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان کی شاندار باؤلنگ کا سامنا کیسے کریں بالخصوص فضل محمود کا۔ جنہوں نے شاندار باؤلنگ کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ویسٹ انڈیز کے ڈریسنگ روم میں کھلبلی مچا دی۔ جان ہالٹ، روہن کنہائی، گیری الیگزینڈر اور باسل بچر سب فضل کو وکٹیں تھما کر چلتے بنے جبکہ اسکور بورڈ پر صرف 48 رنز موجود تھے۔ فتح ویسٹ انڈیز سے 166 رنز اور پاکستان سے 6 وکٹوں کے فاصلے پر کھڑی تھی اور بلاشبہ پاکستان مقابلے پر حاوی تھا۔
یہ موقع تھا توجہ مرکوز رکھنے کا، کیونکہ وقت کی کوئی کمی نہیں تھی۔ گیری سوبرز کولی اسمتھ کے ساتھ مل کر ڈٹ گئے اور دونوں کی جانب سے بنائے گئے ہر رن کے ساتھ پاکستان کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔ 65 رنز کی شراکت داری مجموعے کو 113 رنز تک پہنچا گئی اور اب ویسٹ انڈیز کو درکار ہدف تہرے سے دہرے ہندسے میں پہنچنے والا تھا کہ فضل نے گیند محمود حسین کو تھمائی جنہوں نے 45 رنز بنانے والے سوبرز کو کپتان کے ہاتھوں کیچ آؤٹ کراکے اننگز میں اپنی پہلی لیکن پاکستان کو دن کی سب سے قیمتی وکٹ دلادی۔
سوبرز کے جانے کے بعد پاکستان کے دستے میں ایک نئی روح دکھائی دی۔ جو سولومن نے ویسٹ انڈین اننگز کو سرعت سے آگے بڑھانے کی کوشش کی تاکہ سوبرز کے آؤٹ ہونے سے جو دباؤ قائم ہوا ہے اسے کم کیا جائے لیکن فضل کے سامنے ایسا کرنا اتنا آسان نہیں تھا جنہوں نے پہلے تو سولومن کو محمود حسین کے ہاتھون کیچ کرایا اور پھر کولی اسمتھ کو کلین بولڈ کرکے دوسری اننگز میں بھی اپنی وکٹوں کی تعداد 6 کرلی۔ ویسٹ انڈیز 141 رنز پر سات وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا اور اب پاکستان فتح سے محض تین وکٹ دور تھا۔
ویسٹ انڈیز کی جانب سے آخری نیم دلانہ مزاحمت ایرک ایٹکنسن نے کی لیکن دوسرے اینڈ سے لانس گبز اور ویزلے ہال محمود حسین کی وکٹ بن گئے اور بالآخر 172 کے مجموعے پر محمود نے انہیں ایل بی ڈبلیو کرکے ویسٹ انڈیز کی اننگز کا خاتمہ کردیا۔ پاکستان نے ویسٹ انڈیز جیسے مضبوط حریف کو صرف تین دنوں میں شکست دی۔ 41 رنز کی اس جیت کے ساتھ پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلی بار سیریز جیت لی۔ یہ وطن عزیز میں پاکستان کی مسلسل تیسری سیریز فتح تھی۔ پہلے نیوزی لینڈ، پھر آسٹریلیا اور اب ویسٹ انڈیز! یہ پاکستان کی چوتھی گھریلو سیریز تھی اور اس میں سے کسی میں بھی اسے شکست نہیں ہوئی۔ بھارت کے خلاف اولین ہوم سیریز برابر ہونے کے بعد پاکستان نے مسلسل تین ہوم سیریز جیتیں جو کسی بھی نوآموز ٹیم کے لیے بہت بڑی بات تھی۔
فضل محمود 12 وکٹوں کے ساتھ پاکستان کے لیے ایک مرتبہ پھر ہیرو ثابت ہوئے۔ یہ چوتھا موقع تھا کہ فضل نے کسی ٹیسٹ مقابلے میں 10 یا زیادہ وکٹیں حاصل کی ہوں لیکن فضل کے علاوہ والس میتھیس اور شجاع الدین کی دونوں اننگز میں ذمہ دارانہ بلے بازی نے بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا۔