[انٹرویوز] بورڈ کا رویہ مایوس کن و غیر پیشہ ورانہ ہے: مسعود انوار

0 1,062

گو کہ پاکستان کرکٹ ٹیم اس وقت آف سیزن سے گزر رہی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کرکٹ کے منظرنامے پر ہنگامہ خیزی جاری ہے اور یہ تمام تر 'رونق' ہیڈ کوچ سمیت دیگر اہم عہدوں پر تقرریوں کی وجہ سے ہے۔ کافی ہنگامہ خیزی کے بعد بالآخر پاکستان کرکٹ بورڈ نے وقار یونس کو ایک مرتبہ پھر ہیڈ کوچ کی ذمہ داری سونپ دی ہے اور اس معاملے پراب مختلف سمت سے تعریف و تنقید سامنے آ رہی ہے۔ سب سے اہم رائے تو ان افراد کی ہے جو اس عہدے کی دوڑ میں وقار یونس کے حریف تھے۔ اس لیے کرک نامہ نے ہیڈ کوچ اور اسپن کنسلٹنٹ کے عہدوں کے لیے درخواست جمع کروانے والے یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کے کوچ مسعود انوار سے رابطہ کیا جنہوں نے کوچ کی تقرری کے لیے اختیار کیے گئے طریقہ کار کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

Masood-Anwar

80ء اور 90ء کی دہائی میں 128 فرسٹ کلاس مقابلوں میں 21.71 کے شاندار اوسط کے ساتھ 587 وکٹیں لینے والے مسعود انوار صرف ایک بار پاکستان کی نمائندگی کرپائے جب انہیں دسمبر 1990ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف لاہور میں انہیں ٹیسٹ کیپ دی گئی لیکن یہی ان کا پہلا و آخری بین الاقوامی مقابلہ تھا۔ اب مسعود انوار کوچنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں اور انہوں نے بھی ہیڈ کوچ اور اسپن کنسلٹنٹ کے عہدے کے لیے درخواستیں جمع کروائی تھیں، لیکن اب وہ نوحہ کناں نظر آتے ہیں کہ انٹرویو کے لیے طلب کرنا تو کجا، پاکستان کرکٹ بورڈ نے تو یہ زحمت کرنا بھی گوارہ نہ کی کہ فون پر رابطہ کرتے یا خط ہی ارسال کردیتے کہ آپ کا درخواست جمع کروانے کا شکریہ، لیکن ہم نے دوسرے امیدوار کو منتخب کرلیا ہے۔

مسعود انوار نے ہیڈ کوچ کے انتخاب کے لیے اختیار کیے گئے طریقے کو بالکل نامناسب قرار دیا اور کہا کہ ہوسکتا ہے کہ وقار یونس بہترین انتخاب ہوں لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان کے گزشتہ دور میں خاصے مسائل کھڑے ہوئے تھے اور وہی کھلاڑی اب مزید طاقت کے ساتھ پاکستان کرکٹ میں موجود ہیں، اس لیے ہیڈ کوچ کا عہدہ وقار کے لیے پھولوں کی سیج تو ثابت نہ ہوگا، ہاں، اگر معین خان ان کے ساتھ شانہ بشانہ رہے تو پاکستان ٹیم کے معاملات احسن انداز میں چل سکتے ہیں۔

بائیں ہاتھ کے اسپنر کی حیثیت سے کھیلنے والے مسعود انوار نے اسپن باؤلنگ کنسلٹنٹ کے عہدے کے لیے بھی درخواست جمع کروائی تھی، گوکہ بحیثیت مسلمان وہ خود کو پرامید کہتے ہیں لیکن اسے ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی تصور کرتے ہیں۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ یہ عہدہ مشتاق احمد کو ملنے کے امکانات زیادہ ہيں ، اور انگلستان کے بعد پاکستان کے اسپن باؤلرز کی تربیت کرنا ایک بہت بھاری ذمہ داری ہوگی۔

یونائیٹڈ بینک کے کھلاڑیوں کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی زبردست کارکردگی سب کے سامنے ہے، حالانکہ ٹیم میں کوئی بڑا نام موجود نہیں لیکن اس کے باوجود وہ حالیہ پریزیڈنٹس ٹرافی کے فائنل تک پہنچے جبکہ فیصل بینک ٹی ٹوئنٹی کپ برائے ڈپارٹمنٹس کے سیمی فائنل تک بھی رسائی حاصل کی۔ مسعود انوار نے اوپننگ بلے باز عابد علی کے بارے میں کہا کہ انہیں 36 کھلاڑیوں کےایک ماہ پر مشتمل قومی تربیتی کیمپ میں ضرور طلب کرنا چاہیے تھا۔ وہ حالیہ اور گزشتہ ڈومیسٹک سیزن میں بہترین کارکردگی پیش کرچکے ہیں اور فرسٹ کلاس میں ان کے اعدادوشمار بھی اس قابل ہیں کہ انہیں قومی سطح پر لایا جائے۔ علاوہ ازیں مسعود انوار نے خاص طور پر نوجوان باؤلر ظفر گوہر کا نام لیا جو حال ہی میں پاکستان کی جانب سے انڈر19 ورلڈ کپ کھیل چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ظفر مستقبل میں پاکستان کرکٹ کے لیے بڑا اثاثہ ثابت ہوں گے۔

بائیں ہاتھ سے اسپن گیندبازی کرنے والے مسعود انوار کی پاکستان کی موجودہ اسپن صلاحیت پر کڑی نظر ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ آئندہ عالمی کپ تک پاکستان کی فتوحات میں بائیں ہاتھ کے اسپنرز کا اہم کردار ہوگا۔ البتہ وہ سمجھتے ہیں کہ عبد الرحمٰن، ذوالفقار بابر اور رضا حسن میں سے وہی قومی ٹیم میں مستقل جگہ پا سکے گا جو نہ صرف مکمل فٹ ہوگا بلکہ فیلڈنگ اور بیٹنگ کی اضافی صلاحیتیں بھی رکھتا ہوگا۔