ذکا اشرف بمقابلہ نجم سیٹھی: پنگ پانگ کا یہ کھیل اب کیسے ختم ہوگا؟

3 1,047

قذافی اسٹیڈیم میں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین نجم سیٹھی کی پریس کانفرنس جاری تھی کہ وہاں موجود صحافی نے ایک ایسا جملہ کہا کہ جسے سن کر نہ صرف جناب چیئرمین بلکہ وہاں موجود دیگر افراد بھی قہقہہ لگائے بغیر نہ رہ سکے۔ صحافی نے کہا کہ "پہلے کئی سال بعد پی سی بی کا چیئرمین تبدیل ہوتا تھا مگر اب ہفتے میں دو مرتبہ چیئرمین بدل جاتا ہے" گو کہ وہاں اس بات کو ہنس کر ٹال دیا گیا مگر یہ بات ہمارے لیے ہنسنے کی نہیں بلکہ انتہائی شرمندگی کی ہے۔

نجم سیٹھی خود کہہ چکے ہیں کہ کوچز نے انہیں فون کر کے پی سی بی کے حالیہ معاملات پر تشویش کا اظہار کیا ہے (فائل فوٹو)
نجم سیٹھی خود کہہ چکے ہیں کہ کوچز نے انہیں فون کر کے پی سی بی کے حالیہ معاملات پر تشویش کا اظہار کیا ہے (فائل فوٹو)

پی سی بی کا سربراہ بننے کے لیے دو شخصیات میں جاری اَنا کی جنگ نے دنیا بھر میں نہ صرف اس ادارے کو بلکہ پاکستان کو بھی تماشہ بنا کررکھ دیا ہے۔ کئی مہینوں سے نجم سیٹھی اور ذکا اشرف کے درمیان جاری "پنگ پانگ" کے کھیل سے جہاں ایک طرف  پی سی بی کے ملازم انتہائی پریشانی اور مخمصے کا شکار ہیں وہیں دوسری طرف کھلاڑیوں میں بھی اضطراب پایا جاتا ہے۔ مزید برآں نجم سیٹھی کے عبوری دور میں منتخب ہونے والے کوچز کو بھی اپنا مستقبل غیر یقینی کا شکار دکھائی دے رہا ہے۔

اب سے چند روز قبل اسلام آباد کی عدالت عالیہ کے حکم پر ذکا اشرف کی بحالی پر نجم سیٹھی نے بہت شور مچایا کہ وہ 9 جون کو اپنے عبوری دور کی مدت پوری ہونے کے بعد پی سی بی چیئرمین کے لیے انتخابات کروانا چاہتے تھے لیکن انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف چار روز بعد عدالت عظمی کے حکم پر دوبارہ چیئرمین بننے والے نجم سیٹھی نے انتخابات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی اور جب انہیں بتایا گیا کہ بین الصوبائی رابطے کے وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے پی سی بی کو 12 جون کو چیئرمین کے انتخابات کروانے کی ہدایت دی ہے تو سیٹھی صاحب نے پہلے حیرانی کا اظہار کیا اور پھر "خوشی" بھی ظاہر کی کہ اگر وزارت نے ایسا حکم جاری کیا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔

کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ نجم سیٹھی پی سی بی پر طویل حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں کیونکہ پہلی مرتبہ چیئرمین بننے سے قبل نجم سیٹھی کشمکش کا شکار تھے مگر اب وہ بھی اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی یہ تاریخ رہی ہے کہ دھوم دھڑکے سے آنے والے سربراہوں کو خاموشی اور بہت حد تک بے توقیری کیساتھ رخصت ہونا پڑتا ہے کیونکہ از خود کوئی بھی یہ پرکشش عہدہ نہیں چھوڑنا چاہتا۔ نجم سیٹھی نے 12جون کو انتخابات کی ہدایت پر سر تسلیم خم تو کر دیا ہے مگر وہ خود بھی ان انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش رکھتے ہیں تاہم وہ اپنی خواہشات کو وہ پیٹرن ان چیف کی منشا کا لبادہ پہنانا چاہتے ہیں۔

نجم سیٹھی نے پہلے بھی طویل منصوبہ بندی کی باتیں کی تھیں اور اب بھی وہ رواں سال سری لنکا کی ٹیم کو پاکستان کا دورہ کرنے پر رضامند کرنے کے عزم کا اظہار کرچکے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لمبے عرصے تک چیئرمین کی کرسی پر بیٹھنا چاہتے ہیں۔

باوجودیکہ اعلان کردہ چیئرمین کے انتخابات میں دو، ڈھائی ہفتے باقی ہیں، اب تک یہ واضح نہیں کہ چیئرمین پی سی بی کے الیکشن کا طریقہ کار کیا ہوگا اور اس میں حصہ لینے کی شرط کیا ہے؟ آیا ذکا اشرف اور نجم سیٹھی انتخابات میں حصہ لینے کو ترجیح دیں گے یا وہ قانون کی مدد سے ہی ایک دوسرے کا دھڑن تختہ کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا یہ انتخابات دھاندلی سے پاک ہونگے یا نہیں؟ یہ تمام سوالات نہایت پیچیدہ ہیں اور شاید ان کے جوابات دینا اور بھی مشکل ہو۔ اگر ذکا اشرف نے ایک بار پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا تو شاید انتخابت کروانا پی سی بی کے لیے ممکن ہی نہ ہوں اور اگر انتخابات ہو بھی گئے تو نئے چیئرمین کے سر پر ھبی "قانون" کی تلوار لٹکتی رہے گی۔

پاکستان میں "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کا دور دورہ ہے اور اس اعتبار سے ہی پی سی بی کی سربراہی کے لیے نجم سیٹھی بہترین انتخاب ہیں۔ ذکا اشرف کو یہی مشورہ ہے کہ وہ لاکھ جتن کرلیں مگر وہ پی سی بی کے پیٹرن ان چیف اور ملک کے وزیر اعظم نواز شریف کو راضی نہیں کرسکیں گے اس لیے انہیں "ملکی مفاد" کی خاطر "پنگ پانگ" کے کھیل سے دستبردار ہوجانا چاہیے تاکہ پاکستان کرکٹ کو استحکام مل سکے اور فیصلوں میں تسلسل قائم ہو۔ یہ بات واضح ہے کہ نجم سیٹھی موجودہ حکومت کے چہیتے ہیں جو اُن کے راستے کی ہر دیوار گرانے سے تامل نہیں کرے گی اس لیے بہتر یہی ہے کہ 12 جون کے بعد بھی پی سی بی کے سربراہ کی کرسی پر نجم سیٹھی بیٹھیں اور پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی اور عالمی کپ 2015ء کے لیے مضبوط ٹیم کی تیاری کیلئے مکمل اختیارات کیساتھ کوششیں کرسکیں۔