پی سی بی کی "ڈنگ ٹپاؤ" پالیسیاں؛ 'ریسکیو' کے بجائے 'ریسٹ کرو' پر عمل پیرا
تین برس قبل پاکستان نے متحدہ امارات کے میدانوں میں انگلینڈ کو تاریخی وائٹ واش کیا۔ اس جیت میں مرکزی کردار پاکستانی اسپنرز کا تھا جنہوں نے مجموعی طور پر تین ٹیسٹ میچز میں 48 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی اور پاکستانی اسپن گیندبازوں کے سامنے گورے بے بس دکھائی دیے۔ اب چند ماہ بعد آسٹریلیا نے پاکستان کےخلاف یہیں پر ٹیسٹ سیریز کھیلنی ہے، جسے ممکنہ طور پر انگلینڈ کی طرح پاکستانی اسپنرز کےخلاف مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ امارات میں کامیابی کےحصول کے لیے مخالف ٹیم کے اسپنرز کا تگڑا ہونا بھی ضروری ہے۔اسی کے پیش نظر آسٹریلیا نے کنڈیشنز اور پاکستانی اسپنرز سے نمٹنے کے لیے مایہ ناز سری لنکن اسپنر متیاہ مرلی دھرن کی خدمات حاصل کی ہیں۔
آسٹریلیا ایشیا کے آخری دورے میں بھارت کے خلاف چاروں ٹیسٹ مقابلوں میں شکست کھا بیٹھا تھا۔ بھارتی اسپنرز کے آسٹریلوی بیٹنگ لائن پر دھاوے کے بعد اب پاکستان کے خلاف اس خفت سے بچنے کے لیے آسٹریلوی بیٹسمینوں کو بھرپور انداز میں تیار کیا جائے گا اور اسپن باؤلنگ کے خلاف تیاری اور اپنے اسپنرز کو بہتر بنانا کرکٹ آسٹریلیا کی اولین ترجیح بن چکا ہے۔
آسٹریلین کرکٹ کا یہ المیہ رہا ہے کہ شین وارن کی رخصتی کے بعد کینگروز کو کوئی عالمی معیار کا اسپنر میسر نہیں آسکا اور چاہے کنڈیشنز کوئی بھی ہوں، آسٹریلیا کو تیز باؤلرز ہی پر اعتماد کرنا پڑتا ہے۔ کرکٹ آسٹریلیا جانتا ہے کہ امارات کی گرمی میں ٹیسٹ مقابلوں میں تیز باؤلرز پر بھروسہ کرنا مہنگا سودا ثابت ہوسکتا ہے اور اسی لیے اسپن گیندبازوں کی تربیت کے لیے مرلی دھرن کی خدمات حاصل کی گئی ہیں تاکہ اسپنرز کے ساتھ پاکستان کے خلاف کامیابی کے امکانات میں اضافہ کیا جا سکے۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ شین وارن کی موجودگی میں کرکٹ آسٹریلیا نے مرلی دھرن کی خدمات مستعار لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ کیونکہ شین وارن کی عظمت پر شک نہیں کیا جاسکتا جواپنے ملک کے اسپنرز کی تربیت زیادہ بہتر انداز میں کرسکتا ہے۔مگر مرلی کو کوچنگ اسٹاف میں شامل کرنے کی بنیادی وجہ آسٹریلیا میں آف اسپنرز کی بہتات ہے اور مرلی کا بنیادی میدان ہی یہی ہے۔ اس کے علاوہ عملے میں مرلی کی موجودگی ان کے ایشیائی پس منظر کی بھی وجہ سے ہے۔ وہ شین وارن کے مقابلے میں ایشیائی وکٹوں سے کہیں زیادہ ہم آہنگ ہیں ۔ اسی طرح کی مثال سری لنکا میں بھی ہے کہ جس نے دورۂ انگلستان کے لیے انگلش کاؤنٹی کے تجربہ کار بیٹسمین کرس ایڈمز کی خدمات حاصل کیں جو انگلش کنڈیشنز سے نبرد آزما ہونے میں سری لنکا کے بیٹسمینوں کو بہترین مدد فراہم کرسکتا تھا۔
نامانوس حالات سے آشنائی رکھنے والے کوچز کی مختصر مدت کے لیے خدمات حاصل کرنے کی یہ دو بہترین مثالیں ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان ممالک کے بورڈز کا وژن کیا ہے اور وہ اپنی ٹیم کے ساتھ کس قدر مخلص ہیں۔
دوسری طرف پاکستان کرکٹ کو دیکھیں تو ایسی کوئی مثال نظر نہیں آتی۔ ملکی کرکٹ کے معاملات سدھارنے کے بجائے ایسے فیصلے کیے جا رہے ہیں جس سے یہ کھیل مزید پستی کی جانب جارہا ہے۔ اکتوبر میں ہونے والی پاک-آسٹریلیا سیریز کے لیے مہمان نے تو تیاری کا آغاز گویا کر ہی دیا ہے لیکن پاکستان کے ہیڈ کوچ وقار یونس نے ابھی تک سرزمین پاک پر قدم بھی رنجہ نہیں فرمایا۔ وہ جون کے بالکل آخری ہفتے میں پاکستان آئیں گے، چند دن کا کیمپ لگائیں گے اور پھر ٹیم کو لے کر سری لنکا چلے جائیں گے۔ جبکہ بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور دورۂ سری لنکا کے آغاز سے قبل قومی ٹیم میں شمولیت اختیار کریں گے۔ کیا یہ ضرور نہیں تھا کہ ایک ماہ تک جاری رہنے والےسمر کیمپ میں ہیڈ کوچ اور بیٹنگ کوچ ٹیم کے ساتھ موجود ہوتے۔ انہیں کھلاڑیوں کی فٹنس سے آگاہی حاصل ہوتی، ٹیم کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا موقع ملتا،لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اب جبکہ پاکستان کے لیے ایک مصروف ترین سیزن کا آغاز ہونے والا ہے جو اگلے سال ورلڈ کپ جیسے اہم ٹورنامنٹ پر ہی ختم ہوگا، یہ سمر کیمپ ہی وہ سنہری موقع تھا کہ کوچ، کپتان، کھلاڑی اور مینیجر ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ آگہی حاصل کرتے، منصوبہ بندی کرتے، حکمت عملی مرتب دیتے اور آنے والے دنوں کی تیاری کرتے۔ لیکن یہ موقع گنوا دیا گیا۔ دوسری ٹیمیں ہر سیریز کو اہمیت دیتے ہوئے اس کے لیے مناسب تیاریاں کرتی ہیں مگر پاکستان کرکٹ بورڈابھی تک ”ڈنگ ٹپاؤ“ پالیسیوں پر چل رہا ہے۔ جہاں آگ لگنے سے پہلے اس بجھانے کے لوازمات اکٹھے نہیں کیے جاتے، بلکہ آگ لگنے کے بعد سوچا جاتا ہے کہ کیا اس آگ کو بجھایا بھی جاسکتا ہے یا نہیں؟ دنیا کی دوسری ٹیموں کی توجہ ”ریسکیو“ پر ہے تو پی سی بی ”ریسٹ کرو“ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے!