ایک اور عظیم الشان معرکہ، سری لنکا کی تاریخی فتح

1 1,049

قسم سے مزا آ گیا! سری لنکا اور انگلینڈ دو انتہائی سنسنی خیز ٹیسٹ مقابلوں کے ذریعے کرکٹ شائقین کو فٹ بال ورلڈ کپ کے سحر سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہیڈنگلی میں دوسرا مقابلہ بھی آخری دن کے آخری اوور تک گیا اور پہلے میچ کی طرح یہاں بھی قسمت سری لنکا کے ساتھ تھی جس نے پانچویں گیند پر انگلستان کی آخری وکٹ سمیٹ کر سیریز ایک-صفر سے جیت لی۔

یہ سرزمین انگلستان پر سری لنکا کی تاریخ کی پہلی فتح ہے اور کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے کے لیے اس سے بہتر الوداع نہیں ہوسکتا جو اپنے کیریئر کے آخری اور غالباً سب سے یادگار ایام کا لطف اٹھا رہے ہیں۔

سری لنکا کا دورۂ انگلینڈ 2014ء - دوسرا ٹیسٹ

انگلینڈ بمقابلہ سری لنکا

‏20 تا 24 جون 2022ء

ہیڈنگلی، لیڈز، برطانیہ

سری لنکا 100 رنز سے جیت گیا

سری لنکا (پہلی اننگز) 257
کمار سنگاکارا79147لیام پلنکٹ5-6415.5
دنیش چندیمل4555اسٹورٹ براڈ3-4615
انگلینڈ (پہلی اننگز) 365
سیم روبسن127253اینجلو میتھیوز4-4415.5
گیری بیلنس74157شامنڈا ایرنگا4-9315
سری لنکا (دوسری اننگز) 457
اینجلو میتھیوز160249لیام پلنکٹ4-11229
مہیلا جے وردنے79168جیمز اینڈرسن3-9125.5
انگلینڈ (ہدف: 350 رنز) 249
معین علی108٭281دھمیکا پرساد5-5022
سیم روبسن2461رنگانا ہیراتھ3-5942

انگلستان ہیڈنگلی میں ناامیدی کی آخری حدوں تک پہنچا، معین علی کی شاندار سنچری اور جیمز اینڈرسن کی یادگار مزاحمت کی بدولت ایک مرتبہ پھر امید باندھ بیٹھا لیکن اس وقت خواب چکنا چور ہو گیا جب محض دو گیندوں کا کھیل باقی رہ گیا تھا۔ 350 رنز کے ہدف کے تعاقب میں صرف 57 رنز پر آدھے کھلاڑیوں سے محروم ہو جانے کے بعد بالآخر کیا امید ہو سکتی تھی؟ لیکن صرف دوسرا ٹیسٹ کھیلنے والے معین علی کی ناقابل شکست سنچری نے میزبان کو وہ اعتماد عطا کیا، جو درکار تھا۔ 385 منٹوں تک وہ تن تنہا سری لنکا کے باؤلرز کا مقابلہ کرتے رہے۔ معین چوتھے روز کی آخری گیند پر لیام پلنکٹ کے آؤٹ ہونے کے بعد پانچویں دن کے ساتھ ہی میدان میں اترے اور پھر دوسرے اینڈ سے وکٹیں گرنے کے باوجود ہمت نہ ہاری۔281 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے 17 چوکوں کی مدد سے 108 رنز کی اننگز ان کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بس مایوس کن بات یہ ہے کہ یہ اننگز انگلستان کے لیے مقابلہ نہ بچا سکی اور آخری اوور میں جمی اینڈرسن کے آؤٹ ہونے کے ساتھ 20 اوور تک جاری رہنے والی مزاحمت کا خاتمہ ہو گيا۔ اینڈرسن نے گو کہ رن کوئی نہیں بنایا لیکن 55 گیندیں کھیل کر مقابلے کو آخری اوور تک ضرور لے گئے، بس آخری دو گیندیں کھیل لیتے تو شاید نتیجہ کچھ اور ہوتا۔

حیران کن طور پر ہیڈنگلی ٹیسٹ کے آخری لمحات تقریباً لارڈز میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ ہی سے ملتے جلتے تھے۔ وہاں سری لنکا کو آخری وکٹ کے ساتھ آخری اوور کھیل کر میچ بچانا تھا، اور یہاں انگلستان کو یہی صورتحال درپیش تھی۔ سری لنکا تو امپائر کے فیصلے کے خلاف ریویو لےکر بچ گیا تھا لیکن انگلستان ایسا نہ کر پایا اور پانچویں گیند پر شامنڈا ایرنگا کا زبردست باؤنسر جمی اینڈرسن کی وکٹ لے اڑا۔ جس کے بعد سری لنکا کے کھلاڑیوں نے دیوانہ وار جشن منایا اور آخر کیوں نہ منائیں؟ یہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ سری لنکا نے انگلش سرزمین پر ٹیسٹ سیریز جیتی ہو۔

آخر یہ ٹیسٹ اس مقام تک کیسے پہنچا؟ آئیے دیکھتے ہیں۔ دو ٹیسٹ مقابلوں کی سیریز کے معرکے میں انگلستان نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا اور بہترین باؤلنگ کے ذریعے سری لنکا کو صرف 257 رنز پر قابو کرلیا۔ کمار سنگاکارا کے 79 اور وکٹ کیپر دنیش چندیمال کے 45 رنز سری لنکن اننگز کی اہم جھلک رہے تو پلنکٹ کی پانچ وکٹیں اور اسٹورٹ براڈ کی زبردست ہیٹ ٹرک انگلش باؤلنگ کا نمایاں ترین پہلو رہی۔ براڈ اس طرح ٹیسٹ میں دو ہیٹ ٹرکس کرنے والے معدودے چند باؤلرز میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے پہلے کمار سنگاکارا کو اپنے اوور کی آخری گیند پر آؤٹ کیا اور اگلے اوور کی پہلی دونوں گیندوں پر چندیمال اورایرنگا کو ٹھکانے لگا دیا۔ٹیم سمیت ان کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ ہیٹ ٹرک ہوچکی ہے۔

بہرحال، انگلستان کے لیے آغاز امید افزاء تھا جبکہ سری لنکا کے باؤلرز پر بھاری ذمہ داری تھی کہ وہ بلے بازوں کی کارکردگی کا ازالہ کریں۔ ابتداء میں بازی انگلستان کے حق میں رہی۔ اس کے ٹاپ آرڈر نے سری لنکا کو بالکل ہی پچھلے قدموں پر دھکیل دیا۔ سام روبسن کے کیریئر کی پہلی سنچری، گیری بیلنس کے 74 اور این بیل کے 64 رنز نے انگلستان کو صرف تین وکٹوں کے نقصان پر 311 رنز تک پہنچا دیا، یعنی 54 رنز کی واضح برتری۔ سری لنکا حریف بلے بازوں کو آزادانہ کھیلنے کا مزید موقع نہیں دے سکتا تھا اور اس کے باؤلرز نے آخری زور لگایا اور کامیاب ہوگئے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ وہ مرحلہ تھا جہاں سے سری لنکا آہستہ آہستہ مقابلے میں واپس آتا چلا گیا۔ ایرنگا اور میتھیوز نے صرف 54 رنز کے اضافے پر انگلستان کی اننگز کا خاتمہ کیا۔ دونوں کی چار، چار وکٹوں کی بدولت انگلستان کی پہلی اننگز 365 رنز پر ہی تمام ہوگئی۔ گو کہ پہلی اننگز میں انگلستان کو 108 رنز کی برتری حاصل رہی لیکن سری لنکا نے سکھ کا سانس لیا کہ اسے زیادہ رنز کا خسارہ نہیں بھگتنا پڑا۔

اب 108 رنز کے خسارے کو ختم کرکے ایک بڑا ہدف کھڑا کرنے کے لیے سری لنکا کے بلے بازوں کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد تھی۔ یہ مشکل مرحلہ تھا اور ایک مضبوط پوزيشن پر پہنچنے کے بعد یکے بعد دیگرے تین وکٹیں گنوانے سے ان لنکن پیشرفت کو خاصی ٹھیس پہنچی، جو 4 وکٹوں کے نقصان پر 268 رنز تک پہنچا اور پھر محض 9 رنز کے اضافے سے مہیلا جے وردھنے، دنیش چندیمال اور دھمیکا پرساد کی وکٹیں گرگئیں۔ 277 رنز پر 7 کھلاڑی آؤٹ کا ہندسہ سری لنکا کے لیے مایوس کن اور انگلستان کے لیے حوصلہ افزاء تھا۔

اس مرحلے پر ایک مرتبہ پھر میتھیوز نے ذمہ داری سنبھالی ۔ پہلے باؤلنگ میں اور اب بیٹنگ میں ان کی کارکردگی نے گویامقابلے کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔ 249 گیندوں پر محیط ان کی اننگز نے سری لنکا کو غالب مقام تک پہنچا دیا۔ جب صرف تین وکٹیں باقی تھی اور برتری محض 169 رنز کی تھی تو میتھیوز کی 160 رنز کی اننگز ہی تھی جو اسے 349 رنز کی شاندار برتری تک لے آئی۔ انہوں نے آٹھویں وکٹ پر رنگانا ہیراتھ کے ساتھ 149 رنز کی شراکت داری قائم کی اور بعد ازاں سری لنکا کی دوسری اننگز 457 رنز پر مکمل ہوئی۔ میتھیوز کی باری میں 25 چوکے اور ایک چھکا بھی شامل تھا۔

اب تمام تر نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد حتمی ہدف انگلستان کے سامنے تھا۔ ڈیڑھ دن کا کھیل اور 350 رنز۔ اسے انگلش بیٹسمینوں کی حواس باختگی کہیں یا سری لنکا کے باؤلرز کی نپی تلی گیندبازی کہ چوتھا دن مکمل ہوتے ہوتے صرف 57 رنز پر اس کے پانچ کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھے۔ ایلسٹر کک کی مایوس کن فارم کا سلسلہ جاری رہا اور وہ 16 رنز بنانے کے بعد میدان سے لوٹنے والے پہلے کھلاڑی بنے۔ جس کے بعد قطار اندر قطار بیٹسمین واپس پویلین آنے لگے۔ چوتھے دن کا اختتام نائٹ واچ مین لیام پلنکٹ کے آؤٹ ہونے کے ساتھ ہوا، اور انگلستان کی گویا تمام امیدیں ختم ہوگئیں۔

لیکن جب آخری دن کا کھیل شروع ہوا اور معین علی نے اپنے حقیقی جوہر دکھانے شروع کیے تو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ امید بندھتی چلی گئی۔ بدقسمتی یہ کہ انہیں دوسرے اینڈ سے کسی کا اچھا ساتھ میسر نہیں آ سکا۔ اگر جو روٹ، کرس جارڈن اور اسٹورٹ براڈ اپنی بیٹنگ اہلیت کی مدد سے ان کے ساتھ جم جاتے تو مقابلہ بچایاجا سکتا تھا۔ بہرحال، جب براڈ کی صورت میں نویں وکٹ گریں تو ابھی تقریباً 20 اوورز کا کھیل باقی تھا۔ معین نے تمام ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی اور محض دوسرے ٹیسٹ میں سنچری بنا ڈالی۔ 385 منٹ پر محیط اننگز میں انہوں نے 281 گیندوں کا سامنا کیا، یعنی تقریباً 47 اوورز تک وہ سری لنکن باؤلنگ کے سامنے ڈٹے رہے ، بالفاظ دیگر، دن کے آدھے سے زیادہ اوورز۔ معین نے کیریئر کی پہلی سنچری 259 گیندوں پرمکمل کی لیکن انہیں اس سے زیادہ پروا میچ بچانے کی تھی جسے کسی نہ کسی طرح آخری اوور تک لے گئے۔ اس مقام پرانگلستان کی امیدیں زیادہ تھیں، کیونکہ اینڈرسن بہت عمدگی کے ساتھ دفاع کررہے تھے۔ وہ 50 گیندیں کھیل چکے تھے اور آخری اوور کی ابتدائی چار گیندوں تک انہوں نے شامنڈا ایرنگا کا خوب مقابلہ کیا لیکن پانچویں گیند پر ایرنگا کا ایک زبردست باؤنسر ان کے چہرے کی طرف آیا، جسے روکنے کی کوشش میں وہ گیند ہوا میں اچھال بیٹھے اور رنگانا ہیراتھ نے ایک آسان کیچ تھام کر ان کی اننگز کا خاتمہ کردیا اور سری لنکا میچ 100 رنز سے جیت گیا۔

معین علی 108 رنز پر ناقابل شکست لیکن انتہائی مایوسی کے عالم میں میدان سے لوٹے۔ جمی اینڈرسن بھی آؤٹ ہونےکے بعد کافی دیر تک سر جھکائے پر کھڑے رہے۔ محض ایک گیند نے ان کی اور ساتھی بلے باز کی محنت پر پانی پھیر دیا۔

دوسری اننگز میں دھمیکا پرساد سب سے کامیاب سری لنکن باؤلر رہے جنہوں نے 50 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں جبکہ تین وکٹیں رنگانات ہیراتھ کو ملیں۔

یوں کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے کا آخری دورۂ انگلستان انتہائی یادگار لمحے کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ سری لنکا پہلی بار 'بابائے کرکٹ' کو اسی کے میدانوں پر شکست دینے میں کامیاب ہوگیا۔

سری لنکا کے کپتان اینجلو میتھیوز کو میچ اور سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ سیریز کے لیے انگلستان کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز جیمز اینڈرسن کو ملا۔