نیوزی لینڈ کی ٹیسٹ فتوحات کا سلسلہ دراز، ویسٹ انڈیز کو بھی زیر کرلیا

0 1,019

نیوزی لینڈ نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ویسٹ انڈیز کو ٹیسٹ سیریز میں شکست دے دی اور یوں مسلسل تیسری ٹیسٹ سیریز جیت لی۔ ٹیم نے گزشتہ سال کے اواخر میں ویسٹ انڈیز کے اپنے میدانوں پر شکست دی تھی اور اس کے بعد ہوم گراؤنڈ پرہی بھارت کو زیر کرنے کے بعد اب ویسٹ انڈیز کو ویسٹ انڈیز میں شکست دے کر تاریخ رقم کردی ہے۔ ان فارم کین ولیم سن کی شاندار بیٹنگ، کپتان برینڈن میک کولم کے جراتمندانہ فیصلے اور آخری روز باؤلرز کی عمدہ گیندبازی نے نیوزی لینڈ کے نصیب میں ایک اور شاندار جیت لکھ دی اور مسلسل تیسری ٹیسٹ فتح نے ثابت کیا ہے کہ نیوزی لینڈ میک کولم کی قیادت میں اب بلندیوں کی جانب گامزن ہے۔

کین ولیم سن کی ساتویں ٹیسٹ سنچری اور کیریئر کے بہترین اسکور نے نیوزی لینڈ کو فتح تک پہنچایا (تصویر: WICB)
کین ولیم سن کی ساتویں ٹیسٹ سنچری اور کیریئر کے بہترین اسکور نے نیوزی لینڈ کو فتح تک پہنچایا (تصویر: WICB)

برج ٹاؤن، بارباڈوس میں ہونے والے سیریز کے تیسرے اور فیصلہ کن ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ چوتھے روز ولیم سن کی ناقابل شکست 161 رنز کی اننگز کی بدولت بالادست پوزیشن پر پہنچا ہی تھا کہ سیاہ بادلوں نے میدان کو آ لیا اور دن کا خاصا کھیل بارش کی نذر ہوگیا۔ میچ کے دوسرے روز بھی آدھے سے زیادہ دن کا کھیل بارش کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکا تھا۔ اس صورتحال میں جبکہ نیوزی لینڈ کی برتری 307 رنز تھی، برینڈن میک کولم کو ایک سخت فیصلے کی ضرورت تھی اور انہوں نے سیریز کی خاطر یہ فیصلہ کیا۔ اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان اور یوں ویسٹ انڈیز کو آخری روز جیتنے کے لیے 308 رنز کا ہدف ملا۔ مانا کہ پانچویں دن کی وکٹ پر یہ ہدف حاصل کرنا اتنا آسان نہیں تھا لیکن جارح مزاج بیٹسمینوں کے بل بوتے پر اگر ویسٹ انڈیز 90 اوورز میں مطلوبہ ہدف تک پہنچ جاتا تو نیوزی لینڈ کو لینے کے دینے پڑسکتے تھے۔ لیکن میک کولم کو اپنے باؤلرز پر بھروسہ تھا، جنہوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود انہیں مایوس نہیں کیا اور بالآخر آخری دن کے آخری گھنٹے کا کھیل شروع ہونے کے کچھ دیر بعد ویسٹ انڈیز کو 254 رنز پر ڈھیر کردیا۔

آخری اننگز میں ویسٹ انڈیز کی جانب سے واحد قابل ذکر مزاحمت پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے جیسن ہولڈر نے کی، جو اپنے 52 رنز کے ساتھ میچ کو آخری گھنٹے تک لے گئے۔ انہوں نے شین شلنگ فرڈ کے ساتھ آٹھویں وکٹ پر 77 رنز جوڑ کر نیوزی لینڈ کو خاصا پریشان کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹاپ آرڈر بیٹسمینوں کی ناکامی کا ازالہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ کرس گیل کے 11، کریگ بریتھویٹ کے 6، کرک ایڈورڈز کا 1، شیونرائن چندرپال کے 25 اور کپتان دنیش رام دین کے 29 رنز اس کی مثال ہیں، جس کی وجہ سے ویسٹ انڈیز محض 144 رنز پر اپنی 7 وکٹیں گنوا چکا تھا اور پھر 83 ویں اوور میں 254 رنز پر ڈھیر ہوگیا۔ یوں نیوزی لینڈ نے تیسرا ٹیسٹ 53 رنز سے جیت کر سیریز دو-ایک سے جیت لی۔

میچ میں نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور جمی نیشام کے 78 رنز ہی وہ قابل ذکر اننگز رہے جس نے نیوزی لینڈ کو سہارا دیا۔ لیکن اس کے باوجود بلیک کیپس 300 رنز کا مجموعہ حاصل نہ کرسکے۔ اوپنرز اوپنرز ٹام لیتھم 14 اور ہمیش ردرفرڈ 4 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ اس وقت اسکور بورڈ پر صرف 28 رنز تھے جب کین ولیم سن اور روز ٹیلر نے تیسری وکٹ پر 74 رنز جوڑے لیکن اس کے بعدسلیمان کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ ان دونوں کی مزاحمت کے خاتمے کے بعد صرف نیشام اور مارک کریگ ہی قابل ذکر رنز جوڑ پائے جنہوں نے آٹھویں وکٹ پر 64 رنز کا اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ نہ صرف یہ کہ برینڈن میک کولم صرف 31 رنز بنا سکے بلکہ بریڈلے-جان واٹلنگ بھی محض ایک ہی رن بنا پائے۔ نیوزی لینڈ 79 ويں اوور میں ٹرینٹ بولٹ کےسلیمان بین کے ہاتھوں اسٹمپڈ ہوجانے کے ساتھ ہی اپنی پہلی اننگز کے خاتمے تک پہنچ گیا۔ سلیمان بین نے 93 رنز دے کر5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ 4 وکٹیں کیمار روچ کو ملیں۔

جواب میں ویسٹ انڈیز کا آغاز بہت عمدہ تھا اور شاید میچ میں یہی وہ مرحلہ تھا جب ویسٹ انڈیز بالادست پوزیشن پر آیا۔ اوپنرز کرس گیل اور کریگ بریتھویٹ کی 79 رنز کی افتتاحی شراکت داری اور اس کے بعد بریتھویٹ اور کرک ایڈورڈز کے درمیان دوسری وکٹ پر 74 رنز کی رفاقت نے نیوزی لینڈ کو خاصا پریشان کردیا۔ ویسٹ انڈیز نیوزی لینڈ کی پہلی اننگز کا آدھے سے زیادہ اسکور محض ایک وکٹ کے نقصان پر بنا چکا تھا۔ یہاں تک کہ بریتھویٹ 68 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔

اس مرحلے پر نیوزی لینڈ نائل ویگنر کے ذریعے مقابلے میں واپس آیا۔ انہوں نے ڈیرن براوو اور شیونرائن چندرپال کی قیمتی وکٹیں سمیٹیں اور اسی دوران دوسرے اینڈ سے ٹم ساؤتھی نے کرک ایڈورڈز کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔ 240 رنز پر ویسٹ انڈیز پانچ کھلاڑیوں سے محروم تھا اور ایک بڑی برتری کی تمام امیدیں اب کپتان دنیش رامدین سے وابستہ تھیں۔ گو کہ انہوں نے 45 رنز بنائے لیکن ویسٹ انڈیز کی اننگز بہت تیزی سے اختتام کی جانب بڑھتی چلی گئی اور 98 ویں اوور کی پہلی گیند پر جیروم ٹیلر کے کلین بولڈ ہوتے ہی 317 رنز پر مکمل ہوگئی۔ یوں ویسٹ انڈیز کو پہلی اننگز میں صرف 24 رنز کی برتری ملی۔ یہ ویگنر اور دیگر باؤلرز کی غیر معمولی کارکردگی تھی جس نے ویسٹ انڈیز کو ایک معمولی برتری تک محدود رکھا۔ ان میں ویگنر نے 4، ٹرینٹ بولٹ اور نیشام نے دو، دو جبکہ ساؤتھی اور کريگ نےایک، ایک وکٹ حاصل کی۔

نیوزی لینڈ کی دوسری اننگز کی پوری کارکردگی ایک طرف اور کین ولیم سن کی شاندار اننگز ایک طرف۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ان کی باری ایک جانب رکھ دیا جائے تو شاید ہی نیوزی لینڈ کو شکست سے بچ پایا۔ دوسرے ہی اوور میں ایک وکٹ گرنے کے بعد میدان میں قدم رکھنے والے ولیم سن کو سخت صورتحال درپیش تھی۔ ردرفرڈ، ٹیلر اور میک کولم جیسے منجھے ہوئے بلے باز بھی ناکامی سمیٹے میدان سے لوٹ چکے تھے لیکن ولیم سن ڈٹے رہے۔ جمی نیشام کی دوسری اننگز میں بھی 51 رنز کی عمدہ اننگز کی بدولت انہوں نے اسکور میں 91 قیمتی رنز کا اضافہ کیا۔ البتہ نیشام کے علاوہ کوئی کھلاڑی 29 رنز سے آگے نہ بڑھ پایا۔ یہاں تک کہ بارش نے مقابلے کو روک دیا۔ ولیم سن 271 گیندوں پر 22 چوکوں کی مدد سے 161 رنز بنا کر ناقابل شکست تھے جب میک کولم نے 331 رنز 7 آؤٹ پر ہی اننگز ڈکلیئر کرنے کا جراتمندانہ فیصلہ کیا جو بعد ازاں فاتحانہ ثابت ہوا۔

کین ولیم سن کو اپنی شاندار بیٹنگ پر میچ اور بعد ازاں سیریز کا بھی بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔