ہاشم آملہ یا مصباح الحق، بزدل کون؟
ٹیسٹ کرکٹ میں ہاشم آملہ کا اسٹرائیک ریٹ 50سے زیادہ ہے جبکہ 2013ء کے آغاز سے لے کر سری لنکا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ تک جنوبی افریقی بیٹسمینوں 3.22رنز فی اوور کے حساب سے بیٹنگ کی تھی اور اس عرصے کے دوران 13ٹیسٹ میچز میں سے پروٹیز نے 9میں کامیابی حاصل کی اور صرف دو میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ موجودہ دور میں زیادہ تر ٹیمیں ٹیسٹ کرکٹ میں تین یا اس سے زائد رنز فی اوور کے حساب سے ہی بیٹنگ کررہی ہیں جس کی وجہ سے زیادہ تر ٹیسٹ میچز نتیجہ خیز ثابت ہورہے ہیں مگر سری لنکا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں مثبت کرکٹ کھیلنے والی پروٹیز سائیڈ نے 111 اوورز میں صرف 159رنز بنائے، یعنی صرف 1.43کے رن ریٹ سے، جس میں کپتان ہاشم آملہ کا حصہ 159بالز پر صرف 25رنز تھا۔ مگر کسی بھی جانب سے جنوبی افریقہ یا ہاشم آملہ کو سست رفتاری کے ساتھ بیٹنگ کرنے کے باعث مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔
عام طور پر جار ح مزاج کرکٹ کھیلنے والی پروٹیز سائیڈ نے دوسرا ٹیسٹ میچ بچانے کے لیے منفی انداز اپنایا جس کی بدولت جنوبی افریقی ٹیم نے پہلی مرتبہ سری لنکا میں ٹیسٹ سیریز جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کا کریڈٹ بجا طور پرجنوبی افریقہ کے نئے کپتان ہاشم آملہ کو دینا ہوگا جنہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی مرتبہ قیادت کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کو ایک تاریخی کامیابی سے ہمکنار کروادیا۔ دوسری باری میں 15کے اسٹرائیک ریٹ سے بیٹنگ کرنے والے ہاشم آملہ کے انداز کو حکمت عملی سے تعبیر کیا جارہا ہے کیونکہ جنوبی افریقی ٹیم یہ میچ ڈرا کرکے سیریز جیت سکتی تھی، حالانکہ 111اوورز میں 369کے ہدف کی جانب کوشش کی جاسکتی تھی مگر ہاشم آملہ اور ان کی ٹیم نے پہلے میچ بچانے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب رہے۔
مجھے جنوبی افریقہ کی اس منفی حکمت عملی پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور چند ماہ پہلے جب پاکستان کے خلاف شارجہ ٹیسٹ میں اینجلو میتھیوز نے منفی ہتھکنڈے آزما کر سیریز جیتنے کی کوشش کی تھی تو مجھے اس وقت بھی کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا کیونکہ ان دونوں مواقع پر مثبت کرکٹ کھیل کر میچ کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کی جاسکتی تھی مگر اینجلومیتھیوز اور ہاشم آملہ کا یہ فیصلہ اس لیے درست ہے کہ کپتان کی حیثیت سے نتیجے کو اپنے حق میں محفوظ کرنا ان کا پہلا فرض اور ذمہ داری ہے۔
پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق بھی اسی ’’فارمولے‘‘ کے تحت ٹیسٹ کرکٹ میں کپتانی کررہے ہیں جو دفاعی رویہ اپناتے ہوئے سب سے پہلے اپنی ٹیم کو محفوظ بنانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ عقلمندی اسی میں ہے کہ غیر ضروری جارحانہ انداز اپنا کر ٹیم کو شکست کے دہانے پر پہنچانے سے بہتر یہی ہے کہ پہلے اپنی ٹیم کو محفوظ پوزیشن پر لایا جائے اور پھر فتح کی جانب پیش قدمی کی جائے۔ مگر مصباح الحق کی اسی منصوبہ بندی کو دفاعی حکمت قرار دے کر مصباح الحق کو ناکام کپتان ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو سراسر غلط ہے۔ اپنی ٹیم کو شکست سے بچانے کے لیے خاص طور پر کسی بھی قسم کی حکمت عملی اپنائی جاسکتی ہے جسے غلط نہیں کہا جاسکتا ۔ چند ماہ پہلے اگر اینجلو میتھیوز نے سری لنکا کو سیریز جتوانے کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کیے تھے تو میری نظر میں وہ اس لیے غلط نہیں تھے کہ اگر ان کی کوششوں سے سری لنکا سیریز جیت جاتا تے یقیناً یہ سری لنکا کی بہت بڑی کامیابی ہوتی۔
اب سری لنکا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں ہاشم آملہ نے جس ’’بزدلی‘‘ کا مظاہرہ کیا اس کا تصور پاکستان میں نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پاکستان میں شائقین عقلمندی کے ساتھ میچ بچانے کی بجائے بے وقوفی سے میچ گنوانے والے کپتان کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ کے اس کلچر میں مصباح الحق جیسے کھلاڑیوں کا کھیلنا اور کپتانی کرنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے، جو جذباتی ہوئے بغیر صرف ملک کی سربلندی کے لیے کھیلتے ہیں مگر انہیں سراہنے کی بجائے انہیں بزدل کا ٹائٹل سونپ دیا جاتا ہے۔
سری لنکا کے خلاف دوسرے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں بزدلانہ اپروچ اپنانے کا فیصلہ ہاشم آملہ نے یقینا جنوبی افریقی شرٹ زیب تن کرنے کے باعث کیا ہے کیونکہ پاکستان کے ستارے والی شر ٹ پہن کر کوئی کپتان ایسا کرنے کے بارے میں سوچ نہیں سکتا۔