گال ٹیسٹ میں ناقص منصوبہ بندی، پاکستان مشکلات کی زد میں

4 1,017

جو کرکٹ پر گہری نظر رکھتے ہیں، ان کو پاکستان کی یہ منصوبہ بندی کسی طرح ہضم نہیں ہو رہی کہ وہ سری لنکا کے خلاف، اسی کے میدانوں میں، دنیا کی بہترین بیٹنگ وکٹوں پر صرف چار باؤلرز کے ساتھ میدان میں اترا ہے۔ ابتدائی ایک ڈیڑھ دن، جب تک کہ پاکستان یونس خان کے بل بوتے پر رنز لوٹتا رہا، تب تک تو ٹھیک رہا، لیکن جیسے ہی باری سری لنکا کے ہاتھوں میں آئی، پاکستان کی منصوبہ بندی کی یہ کمزور کڑی کھل کر سامنے آ گئی۔

سعید اجمل اپنے ابتدائی 46 اوورز تک کوئی وکٹ نہ لے پائے، جنید کو 104 رنز دے کر صرف دو وکٹیں ملیں (تصویر: AFP)
سعید اجمل اپنے ابتدائی 46 اوورز تک کوئی وکٹ نہ لے پائے، جنید کو 104 رنز دے کر صرف دو وکٹیں ملیں (تصویر: AFP)

گال کی ایسی وکٹ پر جہاں ابھی گزشتہ سیریز میں جنوبی افریقہ نے صرف اپنی باؤلنگ کے بل بوتے پر مقابلہ جیتا تھا ، پاکستان صرف اور صرف 4 باؤلرز کے ساتھ میدان میں اترا۔ وہ بھی اس طرح کہ ان چار کے علاوہ کوئی جزوقتی یعنی پارٹ ٹائم باؤلر میں ٹیم میں موجود نہیں۔ تیز باؤلنگ میں ذمہ داری جنید خان اور محمد طلحہ کے نوجوان، اور نازک، کاندھوں پر جبکہ اسپن کا شعبہ صرف سعید اجمل اور عبد الرحمٰن کے پاس۔ نتیجہ؟ تیسرے اور چوتھے دن سری لنکا کے بلے بازوں، خاص طور پر کمار سنگاکارا، کی بیٹنگ سے سامنے آ چکا ہے، جس کی بدولت سری لنکا نے 533 رنز بنائے ہیں اور پاکستان 82 رنز کے خسارے میں گیا ہے۔ دو دن تک میدان میں دوڑ دھوپ کے نتیجے میں ذہنی تھکاوٹ کا نتیجہ یہی ہے کہ صرف 4 رنز پر پاکستان اپنی ایک وکٹ سے محروم ہے اور اسے آخری دن میچ بچانے کے لیے بیٹنگ میں ایک مرتبہ پھر جان مارنا ہوگی۔

سری لنکا کی واحد اننگز میں پاکستان کے باؤلرز کے اعدادوشمار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ میچ میں اترنے سے قبل تیاری میں کتنی بڑی خامی رہ گئی۔ جنید خان 33 اوورز میں 104 رنز، محمد طلحہ 27 اوورز میں 104 رنز، سعید اجمل 59 اوورز میں 166 اور عبد الرحمٰن 39 اوورز میں 123 رنز دے چکے ہیں۔ ایک اور باؤلر کی کمی اس شدت کے ساتھ محسوس کی گئی کہ احمد شہزاد سے پانچ اوور کروائے گئے، جنہوں نے اپنے بین الاقوامی کیریئر میں آج تک صرف 15گیندیں پھینکی تھیں۔ سری لنکا کی اننگز میں پاکستان نے تقریباً 163 اوورز کروائے، جن میں سے 158 اوورز چار باؤلرز نے پھینکے۔

سعید اجمل، گو کہ چوتھے روز کے آخری سیشن میں 5 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے، لیکن 166 رنز ؟ اتنے رنز تو گزشتہ نو، دس سالوں میں کسی باؤلر نے نہیں دیے ہوں گے، بجائے اس کے کہ سعید جیسا ورلڈ کلاس باؤلر دے۔ اس کے علاوہ سعید کو 59 میں سے اپنے ابتدائی 46 اوورز میں کوئی وکٹ نہیں مل سکی تھی جو کسی بھی ٹیسٹ اننگز میں وکٹ کے حصول کے لیے ان کا طویل ترین انتظار ہے۔

زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کی کوچنگ کی ذمہ داری ایک سابق باؤلر، بلکہ عظیم گیندباز، وقار یونس کے پاس ہے اور ایک مرتبہ پھر یہ ذمہ داری لینے کے بعد دورۂ سری لنکا ان کا پہلا امتحان ہے۔ سیریز سے پہلے انہی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی نگاہیں اگلے سال عالمی کپ پر ہیں، لیکن دورۂ سری لنکا بھی ہمارے لیے اتنے ہی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ سری لنکا اور اس کے بعد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز ورلڈ کپ کی تیاری میں اہم کردار ادا کریں گی۔ اس کے باوجود گال میں پاکستان نے اپنی اصل قوت باؤلنگ پر نہیں کھیلا۔ ایسی حکمت عملی سے زیادہ سے زیادہ مقابلہ ڈرا ہی کیا جا سکتا ہے، جیتا نہیں جا سکتا۔

اگر پاکستان سیریز جیتنا چاہتا ہے، اور وقار یونس سے زیادہ اس کی خواہش کسی کو نہ ہوگی، تو اسے اپنی کمزوری کو دھیان میں رکھ کر دفاعی انداز سے کھیلنے کے بجائے اپنی قوت کو استعمال کرتے ہوئے باؤلنگ کو مضبوط بنا کر کھیلنا ہوگا۔ یہ الگ بات کہ پاکستان اس سیريز کے لیے انتہائی کمزور باؤلنگ دستہ لے کر گیا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ گال میں ٹیسٹ کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ اگر پاکستان کو شکست ہوئی تو 180 درجے کے زاویے میں گھما کر اگلے ٹیسٹ کے لیے فیصلے کیے جائیں گے جس کا نتیجہ سوائے نقصان کے کچھ نہيں نکلے گا۔ البتہ اگر پاکستان مقابلہ ڈرا کرنے میں کامیاب ہوگیا، تو کپتان اور کوچ کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ اگلے میچ کے لیے حکمت عملی طے کریں، بصورت دیگر پاکستان عالمی درجہ بندی میں تیسری سے چھٹی پوزیشن پر چلا جائے گا۔