ایشیا کی 'سپر پاورز' بے حال، بھارت کو انگلستان کے ہاتھوں بدترین شکست

4 1,083

ایشیائی کرکٹ میں بھارت اور پاکستان کی حیثیت 'سپر پاور' کی سی ہے لیکن اس وقت حریفوں کے سامنے ان دونوں طاقتوں کی حالت بھیگی بلّی کی سی ہے۔ ایک جانب جہاں پاکستان گال کے بعد کولمبو میں بھی شکست کا منتظر ہے، تو دوسری جانب بھارت اوول میں ایک اننگز اور 244 رنز کی بدترین شکست کے ساتھ انگلستان کے ہاتھوں سیریز ہار گیا ہے۔ جولائی کے وسط میں لارڈز میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میں 95 رنز سے کامیابی کے بعد ساؤتھمپٹن میں 266 رنز اور مانچسٹر میں ایک اننگز اور 54 رنز کی شکست کھانے کے بعد اوول میں بھارت کو اپنی تاریخ کی تیسری بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ دلچسپ بات یہ ہےکہ جو وجوہات پاکستان کی سری لنکا میں شکست کا سبب بنی، بالکل وہی حال بھارت کا انگلستان میں رہا۔ پاکستان کی بیٹنگ دھکا دینے پر بھی نہی چل پائی، اور بھارت کے بلے بازوں نے بھی گویا آگے بڑھنے سے انکار ہی کردیا۔ جنہوں نے اپنی سیریز کی بدترین کارکردگی آخری ٹیسٹ کے لیے بچا کر رکھی ہوئی تھی۔ پہلی اننگز میں 90 رنز پر 9 وکٹیں گنوانے کے بعد کپتان مہندر سنگھ دھونی کی بدولت 148 رنز کے مجموعے تک پہنچنے والا بھارت دوسری اننگز میں صرف94 رنز پر ڈھیر ہوگیا۔

چند ہفتے قبل استعفے کے مطالبات سہنے والے ایلسٹر کک کے چہرے کی مسکراہٹ لوٹ آئی (تصویر: PA Photos)
چند ہفتے قبل استعفے کے مطالبات سہنے والے ایلسٹر کک کے چہرے کی مسکراہٹ لوٹ آئی (تصویر: PA Photos)

اوول ٹیسٹ کے تیسرے، اور آخری، روز جب کھانے کے وقفے سے قبل بھارت اپنی دوسری اننگز کے آغاز کے لیے میدان میں اترا تو کچھ ہی دیر میں اس کے دونوں اوپنر واپس ڈریسنگ روم میں تھے۔ مرلی وجے پانچویں اوور میں اینڈرسن کی گیند پر ایل بی ڈبلیو قرار پائے اور ساتویں اوور کی ابتداء گوتم گمبھیر کے رن آؤٹ کے ساتھ ہوئی۔ یوں 'گوتی' کا ٹیسٹ کیریئر تو اب تقریباً اپنے اختتام کو ہی پہنچ گیا جنہیں کافی عرصے کے بعد قومی دستے میں واپس طلب کیا گیا تھا لیکن وہ دورے میں ایک بھی ایسی اننگز نہیں کھیل پائے، جس کی بنیاد پر انہیں ٹیم سے نکالتے ہوئے کچھ سوچا جائے۔ اگلے تقریباً چھ اوورز تک پجارا اور کوہلی مزاحمت کرتے دکھائی دیے اور اس کے بعد وکٹوں کی جھڑی لگ گئی۔ اینڈرسن نے پجارا کو وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ کروایا اور اگلے ہی اوور میں دھونی کرس ووکس کی گیند پر شارٹ لیگ پر دھر لیے گئے اور یوں آدھی بھارتی ٹیم پچاس کے ہندسے پر پہنچنے سے بھی پہلے دھر لی گئی۔ اب کیا مزاحمت ہونا تھی؟ رہ گئے تھے سب آؤٹ آف فارم بلے باز، بشمول ویراٹ کوہلی کے، جو پویلین لوٹنے والے اگلے بلے باز تھے ۔ کرس جارڈن کی ایک خوبصورت گیند نے انہیں حریف کپتان کو کیچ دینے پر مجبور کردیا۔ پھر روی چندر آشون، بھوونیشور کماراور ایشانت شرما بھی جارڈن کو وکٹ دے گئے جبکہ درمیان میں ورون آرون رن آؤٹ ہوئے۔ یوں بھارت کی دوسری اننگز صرف 94 رنز پر مکمل ہوئی۔

ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ بھارت کی شکستہ بیٹنگ لائن اپ میں 338 رنز کے خسارے کا دباؤ جھیلنے کی طاقت ہی نہیں تھی۔ ابتدائی دونوں ٹیسٹ مقابلوں میں عمدہ بیٹنگ کی بدولت اچھے نتائج حاصل کرنے کے بعد بھارت کی برائی کا آغاز ساؤتھمپٹن سے ہوا جہاں اس نے پہلی اننگز میں تو 330 رنز بنائے لیکن اس کے بعد اس کے بلے باز گویا بیٹنگ کرنا ہی بھول گئے۔ دوسری اننگز میں صرف 178 رنز کے ساتھ شکست اور اس کے بعد مانچسٹر میں 152 اور 161 اور اوول میں 148 اور 94 رنز کی کارکردگی کے بعد تو شکست ہی ملنا تھی۔ اس رام کہانی کا سب سے افسوسناک پہلو ویراٹ کوہلی کی ناکامی تھی۔ ایک ایسا بیٹسمین جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی سچن تنڈولکر کے ریکارڈز کو توڑے گا تو وہ کوہلی ہی ہوگا، اپنے کیریئر کے پہلے دورۂ انگلینڈ ہی میں اس بری طرح ناکام ہوگا؟ یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔ پانچ مقابلوں کی 10 اننگز میں صرف 13.40 کے اوسط سے 134 رنز، جن میں دو مرتبہ صفر کی ہزیمت بھی شامل ہے، بھارت کی شکست کا حال بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔

سیریز میں ناقابن شکست برتری حاصل کرنے کے بعد انگلستان نے اوول میں ٹاس جیتا اور اس کے بعد اس کا ہر تیر ٹھیک نشانے پر بیٹھا اور ساؤتھمپٹن اور اولڈ ٹریفرڈ کی طرح بھی یہاں بے جوڑ مقابلہ دیکھنے کو ملا۔ بھارت کی پہلی اننگز میں سوائے کپتان دھونی کے کوئی کھلاڑی بھی انگلستان کی تیز باؤلنگ کے سامنے جم کر کھیلتا نہ دکھائی دیا اور کھانے کے وقفے سے پہلے پہلے اس کی 43 رنز پر پانچ وکٹیں گرچکی تھیں۔ ان میں گوتم گمبھیر اور اجنکیا راہانے صفر جبکہ پجارا 4 اور کوہلی 6 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے۔ دہرے ہندسے میں پہنچنے والی واحد ہستی مرلی وجے کی تھی جنہوں نے 18 رنز بنائے۔ حالات اس کے بعد بھی بالکل نہ بدلے اور دوسرے سیشن میں مزید 4 وکٹیں انگلش باؤلرز کے ہتھے چڑھ گئیں۔ اگر آخری وکٹ پر دھونی اور ایشانت شرما کے درمیان 58 رنز کی شراکت داری قائم نہ ہوتی تو بھارت تہرے ہندسے میں بھی داخل نہ ہوپاتا۔اس شراکت داری میں ایشانت کا حصہ محض 7 رنز کا تھا اور بالآخر دن کے خاتمے سے کہیں پہلے یہ شراکت داری بھی اختتام کو پہنچی۔ بھارت پہلی اننگز میں صرف148 رنز جوڑ پایا، جس میں سے 82 رنز دھونی کے تھے۔ انگلستان کی جانب سے کرس جارڈن اور کرس ووکس نے تین، تین اور جمی اینڈرسن اور اسٹورٹ براڈ نے دو، دو وکٹیں حاصل کیں۔

انگلستان کے لیے ایک مرتبہ پھر میدان تیار تھا۔ اس نے دن کے بقیہ 19 اوورز میں 62 رنز جوڑ کو ظاہر کردیا کہ پچ میں بارودی سرنگیں نصب نہیں بلکہ یہ کھیلنے کے لیے بہت آسان وکٹ ہے۔ دوسرے دن ابتدائی لمحات ہی میں سام روبسن کی صورت میں انگلستان کو پہلا نقصان اٹھانا پڑا جس کے بعد بھارت کے باؤلرز کے طویل انتظار کی شروعات ہوئی۔ دوسری وکٹ پر کپتان ایلسٹر کک اور گیری بیلنس کے درمیان 125 رنز کی رفاقت نے بھارت کے رہے سہے حوصلے بھی ختم کردیے۔ پہلے سیشن میں صرف ایک وکٹ حاصل کرنے کے بعد بھارت کو چائے کے وقفے سے کچھ ہی دیر قبل کچھ سکھ کا سانس ضرور ملا۔ کک-بیلنس شراکت داری کے خاتمے کے بعد اس نے 38 رنز کے اضافے سے انگلستان کی چار وکٹیں حاصل کرلیں۔ ان میں کک 79 اور بیلنس 64 جبکہ این بیل 7 اور معین علی 14 رنز کے ساتھ شامل رہے۔ پھر معاملہ وہیں آخری جوڑی پر آ کر ٹھہر گیا۔ ایک مرتبہ پھر جوس بٹلر اور جو روٹ جنہوں نے چھٹی وکٹ پر 80 رنز جوڑ کر بھارت کو مزيد مشکلات سے دوچار کردیا۔ بٹلر اور ان کے بعد آنے والے ووکس کو دوسرے دن کے خاتمے سے پہلے آؤٹ کرنے کے بعد بھارت کی اولین کوشش یہ تھی کہ کسی طرح انگلش اننگز کی بساط جلد از جلد لپیٹ دے۔ لیکن جب تک ایک اینڈ پر جو روٹ کھڑے تھے، ایسا ہونا ممکن نہیں تھا۔ نوجوان نے تیسرے روز آخری تین وکٹوں کے ساتھ 168 رنز کا اضافہ کرکے اپنی صلاحیت کا ایک اور ثبوت دیا۔ آخری بلے بازوں میں جارڈن نے 20 اور براڈ نے 37 رنز کا اضافہ کیا اور روٹ 165 گیندوں پر 149 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر میدان سے لوٹے۔ انگلستان کی اننگز 486 رنز پر مکمل ہوئی، جو بعد ازاں واحد اننگز ہی ثابت ہوئی کیونکہ بھارت کی دوسری اننگز کی مزاحمت 30 اوورز تک بھی برقرار نہ رہ سکی۔

جو روٹ کو شاندار سنچری پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا البتہ سیريز میں 103 کے اوسط کے ساتھ 518 رنز بنانے کے باوجود سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز انہيں نہیں مل پایا۔ اس کےحقدار جیمز اینڈرسن قرار پائے جنہوں نے پانچ مقابلوں میں 20 کے اوسط سے 25 وکٹیں حاصل کرکے بھارت کی 'مہان' بیٹنگ لائن کو تہس نہس کیا۔ بھارت کے بھوونیشور کمار کو عمدہ آل راؤنڈ کارکردگی پر سیریز کے بہترین بھارتی کھلاڑی کا اعزاز دیا گیا۔

مزیدار بات یہ ہےکہ سیريز میں 19 وکٹیں حاصل کرنے والے معین علی کو اوول میں صرف ایک اوور پھینکنے دیا گیا کیونکہ تیز گیندبازوں کی طوفانی باؤلنگ کے سامنے بھارت کے ڈھیر ہونے کی وجہ سے ان کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔