سرفراز احمد، کیا قابل اعتماد وکٹ کیپر بیٹسمین کی تلاش مکمل ہوئی؟
سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں شاید کچھ بھی پاکستان کے حق میں نہیں گیا، مگر شکستوں کے ان اندھیروں میں وکٹ کیپر سرفراز احمد امید کی واحد کرن بن کر ابھرے، جس سے ان کے ڈانواڈول اور دم توڑتے کیریئر کو بھی نئی زندگی مل گئی ہے جس کی سرفراز کے ساتھ ساتھ پاکستان کرکٹ کو بھی سخت ضرورت تھی۔ گویا ایک قابل اعتماد وکٹ کیپر بیٹسمین پاکستان کا ایک خواب تھا۔
پانچ سال سے زائد عرصے کے بعد کسی پاکستانی وکٹ کیپر کی پہلی سنچری کے خالق سرفراز احمد نے اس سیریز میں کئی کارنامے انجام دیے جن میں دو ٹیسٹ کی چاروں اننگز میں 50 سے زیادہ رنز بنا کر خود کو اینڈی فلاور جیسے وکٹ کیپر بیٹسمین کی صف میں شامل کروا لیا۔’’سیفی‘‘ کو ان کارناموں پر بھرپور داد بھی ملی ہے بلکہ کراچی میں تو کسی نے ان کے لیے نقد انعام کا اعلان بھی کردیا ہے۔ رنز کی تعداد اور ریکاررڈز سے قطع نظر سرفراز کا سب سے بڑا کارنامہ وکٹ کیپر بیٹسمین کی جراتمندی کا مظاہرہ ہے۔ جب ٹیم کے سینئر بلے باز رنگانا ہیراتھ کے لیے تر نوالہ ثابت ہو رہے تھے اور سری لنکا کا ایک اسپنر پوری پاکستانی ٹیم پر حاوی ہوچکا تھا تو ایسی نزاعی حالت میں یہ سرفراز ہی تھے جو ہیراتھ کے سامنے ڈٹ گئے اور پسپائی اختیار نہیں کی بلکہ ہر اننگز میں مرد بحران کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی ٹیم کی لاج رکھنے کی کوشش کی ۔
عدنان اکمل گزشتہ تین سالوں میں اپنی عمدہ کارکردگی سے ٹیسٹ دستے میں جگہ مضبوط کی تھی لیکن سرفراز نے ایک ہی سیریز میں انہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ زخمی ہونے کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہونے والے عدنان کو اب واپسی کے لیے سخت امتحان سے گزرنا ہوگا یا وہ سرفراز کی خراب کارکردگی کا انتظار کریں یا ان کے زخمی ہونے کا۔ سرفراز کئی مراحل ایک ہی سیریز میں طے کرگئے ہیں۔ وہ سیریز میں منتخب تو چیف سلیکٹر کے دل میں موجود نرم گوشے کی وجہ سے ہوئے تھے مگر اب انہیں اس حمایت کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ سرفراز نے خود کو ٹیسٹ کے لیے اولین انتخاب کا اہل ثابت کردیا ہے۔
ماضی میں میں سرفراز احمد پر کڑی تنقید کرتا رہا ہوں جس کی وجہ ان کی خراب کارکردگی تھی مگر اس تنقید کی وجہ سے’’سیفی‘‘ ہمیشہ مجھ سے خفا رہا ہے اور ہر ملاقات میں وہ تلخ باتیں کرتا ہی دکھائی دیا۔ جنوبی افریقہ کے دورے پر مکمل ناکامی کے بعد سرفراز میرے اس تبصرے پر خاصا سیخ پا ہوا کہ اس نے ٹیم میں جگہ پکی کرنے کا سنہری موقع گنوادیا کیونکہ پروٹیز کے خلاف سرفراز وکٹوں کے آگے اور پیچھے کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہتا تو بہت ممکن تھا کہ اس سیریز کے بعد ہی عدنان کی واپسی ناممکن ہوجاتی مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور سرفراز پوری سیریز میں موقع حاصل کرنے کے باوجود اپنی جگہ قائم نہ رکھ سکا۔ میری سرفراز پر تنقید کرنے کی سب سے بڑی وجہ ان کا اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ انصاف نہ کرپانا تھی۔ ماضی میں جس طرح کامران اکمل نے بیٹنگ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا وہی اہلیت سرفراز میں بھی موجود ہے اور اس اہلیت کے گواہ اس کے فرسٹ کلاس ریکارڈز ہیں جہاں وہ 40سے زائد کی اوسط کے ساتھ رنز بنا چکے ہیں مگر کیریئر کے پہلے چار ٹیسٹ میچز میں وہ اپنی ڈومیسٹک کارکردگی کا دس فیصد بھی نہیں دکھاپائے تھے۔ اب سرفراز نے پچھلی دو سیریز میں جس طرح بیٹنگ کی ہے اس پر مجھے حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ میں ڈومیسٹک کرکٹ میں سرفراز احمد کی شاندار اننگز کا گواہ ہوں۔
سرفراز میں اپنے ’’گرو‘‘ معین خان کی طرح بیٹنگ کی صلاحیتیں موجود ہیں جن کا مظاہرہ انہوں نے حالیہ دو ٹیسٹ میچز میں کیا ہے جبکہ راشد لطیف جیسا وکٹ کیپر بننے کے لیے سرفراز کو یقیناً محنت درکار ہے کیونکہ وکٹ کیپنگ کے شعبے میں وہ دوسروں سے بہتر نہیں ہے لیکن بیٹنگ سے ملنے والا اعتماد سرفراز کو وکٹ کیپنگ میں بھی بہتر بنا دے گا۔