[آج کا دن] "وہ ایک گیند"، ایک یادگار پاک و ہند مقابلہ

3 1,080

ایک ایسا مقابلہ جسے کوئی نہیں بھول سکتا، کم از کم مصباح الحق تو بالکل بھی نہیں۔ چاہے وہ اگلے سال پاکستان کو ورلڈ کپ بھی جتوا دیں تب بھی وہ اس میچ کو نہیں بھول سکتے، جس میں ایک گیند نے انہیں 'ہیرو' سے 'زیرو' بنا دیا تھا۔ ٹھیک 7 سال پہلے آج ہی کے دن یعنی 24 ستمبر کو کھیلا جانے والا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2007ء کا فائنل!

اس تاریخی مقابلے سے صرف پانچ ماہ قبل شائقین کرکٹ نے تاریخ کا بدترین ورلڈ کپ دیکھا تھا جہاں فائنل تک تماشے سے خالی نہیں تھا۔ کم روشنی کی وجہ سے امپائروں نے مقابلے کو روکا، کچھ دیر میں آسٹریلیا کو فاتح قرار دیا، لیکن پھر میچ کے دوبارہ آغاز کا اعلان کردیا۔ اس بدترین اختتام کے ساتھ آئی سی سی کی انتظامی ساکھ کو سخت دھچکا پہنچا لیکن صرف پانچ مہینوں بعد تاریخ کا پہلا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ایک یادگار ایونٹ ثابت ہوا، جس نے منتظمین کے اگلے پچھلے تمام "گناہ" معاف کردیے۔

جنوبی افریقہ کی سرزمین کھیلے گئے اس پہلے عالمی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں پاکستان اسکاٹ لینڈ، سری لنکا، آسٹریلیا اور بنگلہ دیش کو شکست دیتا، اور بھارت کے خلاف سپر اوور میں ملنے والی ہار کے بعد، سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو روندتا ہوئے فائنل میں پہنچا۔ دوسری جانب بھارت کا آغاز مایوس کن تھا۔ اسکاٹ لینڈ کے خلاف اس کا مقابلہ بارش کی نذر ہوگیا۔ پھر پاکستان کے خلاف گو کہ بال-آؤٹ میں جیت گیا لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف ہار نے اسے مشکل میں مبتلا کردیا۔ لیکن بھارتی کھلاڑیوں نے ہمت نہ ہاری اور انگلینڈ کو 18 اور میزبان جنوبی افریقہ کو 37 رنز سے شکست دے کر سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جہاں ان کا مقابل آسٹریلیا تھا۔ بھارت نے 15رنز سے کامیابی پائی اور پہلے ہی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاک و ہند فائنل طے پا گیا۔

جوہانسبرگ کے وانڈررز اسٹیڈیم میں سبز اور نارنجی رنگ کے پرچموں کی بہار تھی جب مہندر سنگھ دھونی نے ٹاس جیت کر پہلے خود بیٹنگ سنبھالنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد قومی ترانوں نے میدان میں زبردست ماحول بنا دیا۔ سائمن ٹوفل کی 'کھیل شروع کیا جائے' کی صدا کے ساتھ ہی محمد آصف گوتم گمبھیر کی طرف دوڑے اور ایک شایان شان مقابلے کا آغاز ہوگیا۔ پہلے ہی اوور میں یوسف پٹھان کے چھکے نے ٹی ٹوئنٹی کا مزاج ظاہر کیا لیکن اگلے اوور میں چوکا کھانے کے بعد آصف نے انہیں کپتان شعیب ملک کے ہاتھوں کیچ کرا دیا۔ پاکستان کو سہیل تنویر نے رابن اوتھپا کی صورت میں دوسرا شکار دلایا اور بھارت 40 پر دو وکٹوں سے محروم ہوگیا۔ اس مقام پر گمبھیر اور اسی ٹورنامنٹ میں انگلینڈ کے اسٹورٹ براڈ کو چھ گیندوں پر چھ چھکوں کا کارنامہ انجام دینے والے یووراج سنگھ نے 63 رنز بنا کر بھارت کو اچھی پوزیشن پر پہنچا دیا۔ لیکن اس میں بڑا حصہ "گوتی" کا تھا۔ جنہوں نے 54 گیندوں پر 75 رنز بنائے اور 18 ویں اوور میں اس وقت آؤٹ ہوئے جب عمر گل دو اوورز میں یووراج اور دھونی کی قیمتی وکٹیں حاصل کرچکے تھے۔ آخری دو اوورز میں بننے والے 27 رنز کی بدولت بھارت 157 رنز تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ یعنی اسی مجموعے تک جس کے بارے میں میچ کی شروعات میں شعیب ملک نے کہا تھا کہ وہ بھارت کو 160 رنز تک محدود رکھنے کی کوشش کریں گے۔

پاکستان ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2007ء میں فائنل سے قبل تین بار 160 سے اوپر کا مجموعہ حاصل کرچکا تھا۔ گو کہ رودرا پرتاپ سنگھ اپنے ابتدائی دونوں اوورز میں پاکستان کی دو وکٹیں حاصل کرگئے لیکن عمران نذیر اور یونس خان نے چھٹے اوور تک اسکور کو 53 رنز تک پہنچا دیا۔ عمران نذیر بہت خطرناک موڈ میں تھے، انہوں نے سری سانتھ کو پہلے ہی اوور میں جس طرح دو چھکوں اور دو چوکوں کی مدد سے 21 رنز رسید کیے، وہ ان کا ارادہ ظاہر کرنے کے لیے کافی تھے۔ پاکستان سے بدقسمتی سے چھٹے اوور میں ان کی وکٹ گنوا بیٹھا۔ یونس خان کی ایک کال پر فوری ردعمل نہ دکھا پائے اور دوسرے اینڈ پر تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ رابن اوتھپا کا براہ راست تھرو پاکستان کی پیشرفت کو سخت نقصان پہنچا گیا۔ عمران نذیر کی 14گیندوں پر 33 رنز کی عمدہ اننگز اپنے اختتام کو پہنچی اور اس کے ساتھ ہی پاکستانی اننگز پٹری سے اتر گئی۔ یونس خان بھی کچھ نہ کرپائے پھر عرفان پٹھان عرفان پٹھان کے ایک ہی اوور میں شعیب ملک اور شاہد آفریدی کا آؤٹ ہونا پاکستان کے لیے فیصلہ کن ضرب تھا۔ صرف 77 رنز پر 6 وکٹیں گرچکی تھیں۔

مصباح الحق اس وقت 11 گیندوں پر 6 رنز کے ساتھ کریز پر موجود تھے اور پاکستان کو آخری 8 اوورز میں 80 رنز کی ضرورت تھی۔ 16 ویں اوور تک مصباح اور یاسر عرفات کوئی اوور لوٹنے میں کامیاب نہ ہوسکے لیکن جیسے ہی عرفات آؤٹ ہوئے مصباح سمجھ گئے کہ "اب جو کرنا ہے، میں نے ہی کرنا ہے"۔ انہوں نے اننگز کے 17 ویں اوور میں ہربھجن سنگھ کو تین کرارے چھکے لگائے۔ اس اوور میں لوٹے گئے 19 رنز کے ساتھ پاکستان کو درکار رن اوسط یکدم نیچے آ گیا۔ پھر اٹھارہویں اوور میں سہیل تنویر کے سری سانتھ کو لگائے گئے دو چھکوں نے معاملہ مزید آسان کردیا۔ اس مقام پر پاکستان کو وکٹیں بچانے کی ضرورت تھی جو بدقسمتی سے نہ بچ پائیں۔ پہلے سہیل تنویر بولڈ ہوئے اور اگلے اوور میں عمر گل کی وکٹ گرگئی۔ یوں پاکستان 9 وکٹوں سے محروم ہوگیا اور واقعی اگر یہ دونوں کھلاڑی اس نازک مرحلے پر مصباح کا ساتھ نہ چھوڑتے تو آج شاید ہم دوسری تاریخ پیش کررہے ہوتے۔

بہرحال، پاکستان کو آخری اوور میں 13 رنز کی ضرورت تھی اور گیند ناتجربہ کار جوگندر شرما کے ہاتھ میں۔ پہلی ہی گیند سے اندازہ ہوگیا کہ شرما کے ہاتھ پیر پھولے ہوئے ہیں۔ پہلی گیند وائیڈ پھینکی اور اس کے بعد تیسری گیند پر مصباح الحق کے ہاتھوں چھکا کھایا۔ اب 4 گیندوں پر 6 رنز کی ضرورت تھی اور یہاں سے صرف ایک ہی صورت میں پاکستان ہار سکتا تھا، اگر مصباح چاہیں تو۔ مصباح چاہتے تو ہرگز نہیں تھے لیکن انہوں نے اس مقام پر اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی۔ فائن لیگ پر چوکا حاصل کرنے کے لیے اسکوپ کھیلا، گیند ان کے بلّے سے لگ کر ہوا میں اچھلی اور کروڑوں پاکستانی و بھارتی شائقین کے کلیجے منہ کو آگئے کہ کیا یہ گیند فیلڈر کو پیچھے چھوڑتے ہوئے چوکے کی جانب جائے گی؟ یا سری سانتھ کے ہاتھوں میں جا ٹھہرے گی؟ سیکنڈ کے معمولی حصے میں ہی واضح ہوگیا کہ گیند جس مقام پر گرے گی عین وہیں سری سانتھ کھڑے ہیں، انہوں نے ایک آسان کیچ تھاما اور اس کے ساتھ ہی برصغیر کا نصف حصہ زبردست جشن میں ڈوب گیا اور نصف کو غم کی چادر نے اوڑھ لیا۔

مصباح سر پکڑ کر میدان میں ہی بیٹھ گئے 38 گیندوں پر 43 رنز کی اننگز فاتحانہ ثابت نہ ہوسکے۔ یقین کی آخری حدوں تک پاکستان کو کامیابی سے قریب لے جانے کے بعد بھی شکست مصباح اور پاکستان کا مقدر ٹھہری۔ یوں طرح مصباح پاکستان کے لانس کلوزنر بن گئے۔ وہ کلوزنر، جو 99ء کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کو یقین کی آخری حدوں تک جیت کے قریب لے آئے تھے، لیکن آخری گیند پر رن آؤٹ کی وجہ سے مقابلہ ٹائی ہوگیا اور آسٹریلیا فائنل میں پہنچ گیا۔ بہرحال، پاکستان عالمی چیمپئن ضرور بنا، مزید دو سال کے انتظار کے بعد۔ جب 2009ء میں لارڈز کے تاریخی میدان پر یونس خان کی زیر قیادت پاکستان نے سری لنکا کو شکست دی ۔ لیکن اگر پاکستان جوہانسبرگ میں بھارت کو شکست دے دیتا، تو شاید 24 ستمبر پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے اہم ترین دنوں میں سے ایک ہوتا۔

Misbah-ul-Haq3