موجودہ حالت کا ذمہ دار مصباح نہیں، جاوید میانداد

1 1,032

پاکستان کے عظیم سابق بلے باز جاوید میانداد نے مصباح الحق پر جاری تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کی مسلسل شکستوں کا ذمہ دار پاکستان کرکٹ بورڈ کا موجودہ نظام ہے جو کھیل کے معاملات کو بہتر انداز سے چلانے کی سرے سے اہلیت ہی نہیں رکھتا۔

محض قیادت کرنے کے لیے مصباح کی موجودگی ہی ان کے رنز سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، جاوید میانداد (تصویر: AFP)
محض قیادت کرنے کے لیے مصباح کی موجودگی ہی ان کے رنز سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، جاوید میانداد (تصویر: AFP)

آسٹریلیا کے خلاف ٹی ٹوئنٹی کے بعد ایک روزہ سیریز میں شکست نے عالمی کپ سے صرف پانچ ماہ قبل پاکستان کی تیاریوں کی قلعی کھول دی ہے۔ دو سال قبل انہی میدانوں پر جب پاکستان اور آسٹریلیا مدمقابل آئے تھے اور شکست کے باوجود پاکستان بہت سخت حریف ثابت ہوا تھا۔ آسٹریلیا نے تین میں دو مقابلے 4 اور 3 وکٹوں کے معمولی فرق سے جیتے تھے۔ لیکن موجودہ سیریز کے ابتدائی دونوں مقابلوں میں 93 رنز اور 5 وکٹو ں کی بدترین شکست ظاہر کررہی ہے کہ عالمی کپ کی تیاریاں درست خطوط پر نہیں ہو رہیں۔ دوسرے ایک روزہ میں اوپنرز کی جانب سے 126 رنز کا آغاز فراہم کیے جانے کے بعد تمام کھلاڑی صرف 89 رنز کے اضافے پر آؤٹ ہوگئے۔ یہ کارکردگی کپتان مصباح الحق کے لیے ہرگز نیک شگون نہیں جو عالمی کپ سے پہلے ایسا دستہ تشکیل دینا چاہتے ہیں جو آسٹریلیا و نیوزی لینڈ میں عالمی اعزاز کے لیے مضبوط امیدوار ہو۔

معروف ویب سائٹ پاک پیشن کو دیے گئے انٹرویو میں جاوید میانداد نے یونس خان کی عدم شمولیت پر بھی کڑی تنقید کی اور کہا کہ دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا بیٹسمین نہیں ہے جو ہر قسم کی وکٹوں پر کھیلنے کی یکساں مہارت رکھتا ہو اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں کھلاڑیوں کو منتخب کرنا ہوگا۔ ہمارے پاس فتح گر کھلاڑیوں کی بڑی تعداد موجود نہیں ہے کہ ہم جسے چاہیں نظر انداز کردیں۔ قومی کرکٹ ٹیم کے انتخاب کے ذمہ دار افراد کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی پچیں بالکل مختلف ہوں گی اور اس لیے ہمیں متحدہ عرب امارات اور سری لنکا کے خلاف حالیہ سیریز کے مقابلے میں مختلف کھلاڑیوں کی ضرورت ہوگی۔ کھلاڑی کے انتخاب میں ایک اہم عنصر جو ہم نظرانداز کر جاتے ہیں وہ اس کی فیلڈنگ ہے۔ یونس خان جیسا کھلاڑی فیلڈ کے دوران 30 رنز بچا سکتا ہے اور اس کے بعد اگر وہ 10 رنز بھی بنائے تو میرے خیال میں اس کھلاڑی سے بہتر ہے جو 30 رنز بنائے اور میدان میں 100 رنز دے۔

جاوید میانداد نے کہا کہ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ سلیکٹرز اور ٹیم انتظامیہ کو سرے سے اندازہ ہی نہیں کہ عالمی کپ کے لیے دستے کا انتخاب کس طرح کیا جائے۔ میں نے 6 عالمی کپ ٹورنامنٹس کھیلے ہیں اور میرے خیال میں اس وقت ان افراد سے زیادہ سمجھ رکھتا ہوں جن پر اس کام کے لیے اعتماد کیا جا رہا ہے۔ صرف لیپ ٹاپ رکھ لینے یا چند اسناد حاصل کر لینے سے فاتح دستے منتخب نہیں ہوتے، اس کام کے لیے ضروری ہے کہ عالمی کپ کے دوران بیٹنگ لائن کو سہارا دینے والے عوامل اور ان صلاحیتوں کے حامل کھلاڑیوں کو پہچاننے والی آنکھ ہو، بدقسمتی سے موجودہ تمام افراد میں یہ صلاحیت مفقود ہے۔

پاکستان کی تاریخ کے عظیم ترین بلے بازوں میں شمار ہونے والے جاوید میانداد نے ٹیم کے موجودہ بلے بازوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ہمارے کھلاڑیوں کو اسپن باؤلنگ کا مقابلہ کرنے سے زیادہ اپنے کپڑوں اور بالوں میں زیادہ دلچسپی ہے۔ ان کی ساری توجہ اپنے وزن اور جسمانی وضع قطع پر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ذہنی طور پر کمزور ہیں اور چاہے لاکھ ورزش کرلیں یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے ماضی کے کھلاڑیوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ظہیر عباس اور ماجد خان یا مجھے ہی لے لیں، آج کے کھلاڑیوں کے مقابلے میں ہماری جسمانی حالت کیا تھی؟ لیکن کوئی بھی ہماری مستقل مزاجی اور ریکارڈز کا انکار نہیں کرے گا۔

جاوید میاندان نے بیٹنگ کوچز کے کردار پر بھی انگلی اٹھائی اور کہا کہ جب بیٹنگ لائن تاش کے پتوں کی طرح بکھر رہی ہے تو آخر یہ کوچ کیا کررہے ہیں؟ اس کارکردگی کا ذمہ دار کسے قرار دیا جائے گا؟

مصباح الحق کے حوالے سے میانداد نے دو ٹوک رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر بالکل واضح ہوجائیں کہ موجودہ صورتحال میں مسئلے کی جڑ مصباح نہیں ہے۔ آپ کے نام نہاد اسٹار پلیئرز، جو ایک مرتبہ کھیلتے ہیں اور اگلے تین مقابلوں میں ناکام ہوجاتے ہیں، پھر سدا بہار شاہد آفریدی ہیں جو آج بھی بغیر کسی سوجھ بوجھ کے ہر گیند کو چھکے کے لیے پھینکنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ہر ٹیم کو معلوم ہوچکا ہے کہ شارٹ گیند آفریدی کی کمزوری ہے۔ اس صورتحال میں ہمیں مسئلے کو حل کرنے کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے یا کم از کم کوچز تو اس اہل ہوں کہ اصلاح کرسکیں۔ اس وقت جو ہو رہا ہے وہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے، تب مصباح پاکستان کو مشکل صورتحال سے نکالتے رہے، لیکن اب جب مصباح بھی خراب فارم کا شکار ہیں اور ان کے گرد باقی تمام بلے بازوں کا وہی حال ہے جو پہلے تھا۔

انہوں نے کہا کہ مصباح پر تنقید نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی پاکستان کی شکست کا سبب ان کی فارم ہے۔ وہ قیادت کے لیے میدان میں موجود ہیں اور ان کی موجودگی ان کے رنز سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن خراب فارم نے ان کے ناقدین کو ضرور دباؤ بڑھانے کا موقع فراہم کیا ہے اور یہ حرکت اس صورتحال میں پاکستان کے لیے کچھ فائدہ مند نہیں ہوگی۔

جاوید میانداد نے کہا کہ سادہ سی بات یہ ہے کہ ہم عالمی معیار کے کھلاڑی سامنے نہیں لا پا رہے اور یہ امر سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔ موجودہ سیریز میں جو کارکردگی نظر آ رہی ہے وہ بورڈ کی اعلیٰ انتظامیہ کی سالوں کی غفلت اور بدانتظامی کا منطقی نتیجہ ہے۔ میں نے پہلے بھی تجویز پیش کی تھی کہ باصلاحیت کھلاڑیوں کو سامنے لانے کے لیے معاملات ریجنز کے سپرد کیے جائیں، لیکن اس وقت کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور میری رائے کو نظرانداز کیا۔ ان افراد کے سامنے "جی جناب" کی روایت چڑھائی گئی جو پاکستان کرکٹ کو بہتر بنانے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے اور اب نتیجہ سب کے سامنےہے۔

پاکستان آسٹریلیا کے خلاف کل آخری ایک روزہ مقابلہ کھیلنے بعد 22 اکتوبر سے دو ٹیسٹ کھیلے گا اور اس کے بعد متحدہ عرب امارات ہی میں نیوزی لینڈ کی میزبانی کرے گا۔