"ہمیشہ دیر کردیتا ہوں" سلیکشن کمیٹی کے نام

2 1,143

پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی کی "اعلیٰ کارکردگی" سے کون واقف نہیں؟ شاید ہی قومی کرکٹ تاریخ میں کبھی کوئی ایسا مرحلہ آیا ہو جب ٹیم کے انتخاب کے معاملے پر سوالات نہ اٹھے ہوں۔ لیکن گزشتہ چند سالوں میں قومی سلیکشن کمیٹی نے جو کارنامے کیے ہیں، ویسے شاید ہی کبھی ماضی میں دیکھے گئے ہوں۔ درجنوں کھلاڑی جو ڈومیسٹک کرکٹ میں سالہا سال سے کارکردگی دکھاتے آ رہے تھے، نظر انداز کیے جاتے رہے اور ابھی تک کیے جا رہے ہیں۔

ذوالفقار بابر گزشتہ 60 سالوں میں پاکستان کا ٹیسٹ کیریئر شروع کرنے والے معمر ترین کھلاڑی ہیں (تصویر: Getty Images)
ذوالفقار بابر گزشتہ 60 سالوں میں پاکستان کا ٹیسٹ کیریئر شروع کرنے والے معمر ترین کھلاڑی ہیں (تصویر: Getty Images)

شاید پاکستان اکیسویں صدی میں دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو اس وقت ٹیم کا حصہ بنایا جاتا ہے، جب وہ اپنی زندگی کی دو تہائی کرکٹ کھیل چکے ہوتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین، بلکہ سب سے عمدہ مثال، ذوالفقار بابر کی ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف دبئی ٹیسٹ میں اپنی شاندار اسپن باؤلنگ کے ذریعے پاکستان کی جیت میں کلیدی کردار ادا کرنے والے 'ذولفی' کو فرسٹ کلاس کیریئر کے آغاز کے بعد 10 سال سے زیادہ کا انتظار کرنا پڑا۔ سال 2013ء میں جب انہوں نے جنوبی افریقہ کے خلاف اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا تو وہ 34 سال اور 308دن کی عمر کے ساتھ قومی تاریخ کے دوسرے عمر رسیدہ ترین ڈیبوٹنٹ تھے۔

یہ داستان صرف یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ گزشتہ پانچ سالوں میں آپ کو کئی ایسے کھلاڑی دیکھنے کو ملیں گے جنہیں زندگی کی 30 بہاریں دیکھنے کے بعد 'سبز کیپ' پہننے کا موقع دیا گیا۔ ان میں سعید اجمل جیسے عظیم کھلاڑی بھی شامل ہیں کہ جنہوں نے اپنا پہلا ٹیسٹ 31 سال 263 دن دن کی عمر میں کھیلا۔ علاوہ ازیں طویل قامت محمد عرفان، 30 سال 253 دن؛ تنویر احمد، 31 سال 335 دن اور صرف ایک ٹیسٹ کھیلنے والے محمد ایوب، 32 سال 283 دن، بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کم ا زکم تین کھلاڑی تو اپنے شاندار کھیل کی وجہ سے ملکی قیادت کے اہل ہیں۔ سعید اجمل، محمد عرفان اور ذوالفقار بابر۔ اگر ان کھلاڑیوں کو درست وقت پر قومی ٹیم میں شامل کرلیا جاتا تو شاید آج یہ اس مقام سے کہیں آگے کھڑے ہوتے، جہاں یہ آج موجود ہیں۔

پاک-آسٹریلیا جاری ٹیسٹ سیریز میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے یاسر شاہ اور عمران خان کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں۔ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے عمران خان نے 27 سال اور اسی صوبے کے یاسر شاہ نے 28 سال کی عمر میں پاکستان کے ٹیسٹ دستے میں جگہ پائی ہے۔ 2001ء میں فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز کرنے والے یاسر شاہ کئی مرتبہ بہترین کارکردگی کے باوجود سلیکشن کمیٹی کی جانب سے نظرانداز ہوتے رہے۔

اگر جونیئر سطح سے کھلاڑیوں کو اوپر لانے کے معاملے کو دیکھا جائے تو بھی سخت مایوسی ہوتی ہے۔ 2004ء اور 2006ء میں انڈر-19 ورلڈ کپ جیتنے والے دستوں میں سے کتنے کھلاڑی قومی کرکٹ ٹیم کا مستقل حصہ بن سکے؟ 2004ء میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے جس دستے کو شکست دی، اس کا کپتان دنیش رامدین اب ویسٹ انڈیز کا ٹیسٹ کپتان ہے جبکہ ہمارا فاتح خالد لطیف فرسٹ کلاس کرکٹ میں 7 ہزار سے زیادہ رنز بنانے کے باوجود 5 ون ڈے سے زیادہ نہیں کھیل سکا۔ اس فاتحانہ دستے کے صرف ریاض آفریدی ٹیسٹ مقام تک پہنچے، لیکن انہیں بھی صرف ایک ٹیسٹ کھلا کر ہمیشہ کے لیے باہر کردیا گیا۔ دوسری جانب 2006ء میں بھارت کے خلاف یادگار کامیابی سمیٹ کر پاکستان کو انڈر-19 چیمپئن بنانے والے دستے کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں۔ سرفراز احمد، انور علی اور ناصر جمشید آج 8 سال گزرجانے کے بعد بھی ٹیم میں مستقل جگہ حاصل نہیں کرسکے اور نہ ہی رمیز راجہ جونیئر کی کہانی 2 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں سے آگے بڑھ پائی۔ اس کے مقابلے میں اسی میچ میں کھیلنے والے چیتشور پجارا، روہیت شرما، رویندر جدیجا اور پیوش چاؤلہ آج کس مقام پر ہیں، یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں۔

یہ صورتحال پاکستان کرکٹ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ایک ایسا ملک جو پانچ سالوں سے بین الاقوامی کرکٹ کی میزبانی سے بھی محروم ہو، اور جس کے اہم ترین کھلاڑی مختلف وجوہات کی بنیاد پر وقفے وقفے سے بین الاقوامی کرکٹ سے باہر ہوتے رہے ہیں، وہاں تو قومی سلیکشن کمیٹی کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے کہ وہ نیا ٹیلنٹ تلاش کرے اور اسے بروقت میدان میں اتارے۔ لیکن یہ سب اس وقت ہوگا جب ہم "نوازنے" کے کلچر سے باہر نکلیں گے۔

تعارف: نعمان یونس بلاگر ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونی کیشنز میں ماسٹرز کرچکے ہیں۔ آپ ان سے ٹوئٹر پر رابطہ کرسکتے ہیں۔