اپنی کارکردگی سے پاکستان ٹیم کا مستقل حصہ بنوں گا: فواد عالم
پاکستان محدود اوورز کی کرکٹ میں مایوس کن نتائج کے بعد اس وقت ٹیسٹ میں فتوحات سمیٹ رہا ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں دو تاریخی فتوحات کے بعد اس وقت نیوزی لینڈ کے مقابلے پر بھی پاکستان سیریز میں ایک-صفر کی برتری حاصل کیے ہوئے ہے۔ اگر دبئی میں جاری دوسرا ٹیسٹ بھی پاکستان کے حق میں جاتا ہے تو وہ مسلسل دوسری سیریز جیت جائے گا۔ تمام اہم گیندبازوں سے محروم ٹیم کا ایسے نتائج پیش کرنا کئی ماہرین کے لیے حیران کن ہے۔ سعید اجمل، عمر گل، محمد عرفان، جنید خان اور وہاب ریاض کے بغیر کھیلنے والے پاکستان کا آسٹریلیا کو چت کرنا اور اب بھارت اور ویسٹ انڈیز کو ہرانے والے نیوزی لینڈ کو شکست دینا مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ لیکن، ان یادگار مقابلوں میں ایک ایسا کھلاڑی شامل نہیں جو فرسٹ کلاس میں 56 اور ٹیسٹ میں تقریباً 42 کا بیٹنگ اوسط رکھتا ہے اور جب بھی اسے موقع دیا گیا، اس نے خود کو منوایا۔ ہم کراچی کے ہونہار کھلاڑی فواد عالم کی بات کررہے ہیں، جنہوں نے اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں 168 رنز کی یادگار اننگز کھیلی اور رواں سال ایک روزہ کرکٹ میں واپس آتے ہی 74 اور 114 رنز کی دو شاندار باریاں کھیل کر اپنی اہلیت و اہمیت ثابت کی۔
کرک نامہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فواد عالم نے اپنی کرکٹ کے آغاز سے لے کر مستقبل کے ارادوں تک ہر پہلو پر روشنی ڈالی اور اس امید کا اظہار کیا کہ وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنی کارکردگی کے بل بوتے پر ٹیسٹ اور ایک روزہ دونوں طرز میں قومی ٹیم میں مستقل مقام حاصل کریں گے۔
اپنی کرکٹ کے آغاز کے حوالے سے فواد عالم نے بتایا کہ میرے والد طارق عالم معروف فرسٹ کلاس کھلاڑی تھے۔ جو 109 فرسٹ کلاس اور 64 لسٹ 'اے' مقابلوں کا تجربہ رکھتے تھے۔ ان کو کھیلتا دیکھ کر کرکٹ سے مجھے بچپن ہی میں دلچسپی ہوگئی تھی۔ پھر وہ مجھے اپنے ساتھ اسٹیڈیم بھی لے جایا کرتے تھے اور وہاں کھلاڑیوں کو کھیلتا دیکھ کر میرے شوق میں مزید اضافہ ہوا۔ روایتی خاندانوں کے بجائے کرکٹ کے حوالے سے مجھے ہمیشہ گھر والوں کا تعاون حاصل رہا۔ پھر جب والد صاحب سے لے کر خاندان کے ہر فرد نے کھیل پر میرا بھرپور ساتھ دیا۔
29 سالہ فواد عالم پہلی بار 2007ء میں بین الاقوامی منظرنامے پر رونما ہوئے جب پاکستان اور سری لنکا کے درمیان متحدہ عرب امارات میں ایک روزہ سیریز کھیلی گئی تھی۔ یعنی کہ فواد کو پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ساڑھے 7 سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں صرف 3 ٹیسٹ، 35 ایک روزہ اور 24 ٹی ٹوئنٹی کھیلنے کا موقع دیا گیا ہے۔
2009ء میں جب پہلی بار فواد عالم کو دورۂ سری لنکا میں ٹیسٹ کیپ دی گئی تو انہوں نے پہلے ہی ٹیسٹ میں 168 رنز کی اننگز کھیل کر اپنی اہلیت ثابت کی۔ اس اننگز کی یادیں تازہ کرتے ہوئے فواد نے کہا کہ سری لنکا جیسی ٹیم کے خلاف انہی کے ملک میں اتنی بڑی اننگز کھیلنے کے بعد میرے حوصلے بہت بلند ہوگئے تھے اور میں اس اننگز کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہوں لیکن اس کے باوجود مجھے اسی سال صرف تین ٹیسٹ کھیلنے کا موقع دیا گیا اور پچھلے پانچ سالوں سے دوبارہ ٹیسٹ کرکٹ میں واپس نہیں لیا گیا۔ اس کی وجوہات تو مجھے معلوم نہیں، لیکن ان تین مقابلوں میں بھی بیٹنگ اوسط تقریباً 42 ہے۔ لیکن فواد کہتے ہیں کہ ان کی توجہ ڈومیسٹک کرکٹ پر مرکوز ہے اور حالیہ فرسٹ کلاس سیزن میں اچھی کارکردگی کی بنیاد پر ٹیسٹ دستے میں واپسی کے لیے پرامید ہیں۔
2007ء میں ایک روزہ ڈیبو کے بعد فواد کو تین سالوں میں 28 ایک روزہ مقابلے کھلائے گئے۔ ملی جلی کارکردگی کے بعد بالآخر نومبر 2010ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز شکست کے بعد فواد کو عرصہ دراز کے لیے اسکواڈ سے باہر کردیا گیا۔ اسے فواد کی بدقسمتی کہیے کہ حالیہ تاریخ میں پاکستان کی تینوں بدترین سیریز میں فواد دستے کا حصہ تھے۔ 2010ء کے اوائل میں دورۂ آسٹریلیا میں، اسی سال اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل والے دورۂ انگلستان میں اور اس کے فوراً جنوبی افریقہ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی ون ڈے سیریز میں، جہاں شکستوں اور تنازعات نے کئی کھلاڑیوں کے کیریئر کا خاتمہ کیا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ فواد بھی انہی کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل ہوں گے لیکن 2014ء کے اوائل میں ایشیا کپ کے لیے فواد عالم کو اسکواڈ میں جگہ دی گئی اور واپس آتے ہی انہوں نے بنگلہ دیش کے خلاف 74 رنز کی شاندار اننگز کھیلی، جو ایسے وقت میں پاکستان کے کام آئی جب وہ 327 رنز کا بہت بڑا ہدف عبور کررہا تھا۔ اس کے بعد اگلے ہی مقابلے میں فواد عالم نے سری لنکا کے خلاف 114 رنز کی کیریئر کی بہترین اننگزکھیل کر ثابت کیا کہ انہیں چار سال ٹیم سے باہر بٹھانے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ ان دونوں اننگز کے بارے میں فواد کا کہنا تھا کہ میں نے تو ون ڈے کرکٹ میں اس طرح واپسی کا صرف خواب ہی دیکھا تھا، جو حقیقت کا روپ دھار گیا۔ کسی بھی کھلاڑی کے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ اتنے عرصے بعد ٹیم میں واپس آئے اور آتے ہی رنز کے انبار لگا دے لیکن ایشیا کپ جیسے بڑے ٹورنامنٹ میں دباؤ کے باوجود میری کارکردگی بہت اچھی رہی۔ بنگلہ دیش کے خلاف 300 سے زیادہ کے بڑے ہدف کے تعاقب میں 74 رنز کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا اور پھر سری لنکا کے خلاف اہم مقابلے میں بھی سنچری بنائی۔
اس حوالے سے فواد نے مزید کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ پاکستان 250 سے زیادہ رنز کا تعاقب نہیں کرسکتا۔ انہوں نے اسے منفی سوچ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پاکستان بڑے ہدف کے تعاقب میں گھبرا جاتا ہے اور حال ہی میں متعدد مقابلوں میں ٹیم نے بڑے ہدف کا تعاقب کامیابی سے کیا ہے۔
پاکستان کے بہترین فیلڈرز میں سے ایک شمار ہونے والے فواد کہتے ہیں کہ جدید کرکٹ میں 100 فیصد سے کام نہیں چلتا بلکہ فیلڈنگ میں 200 فیصد جان لڑانا پڑتی ہے۔ ایک روزہ ہو یا ٹیسٹ کرکٹ، ہر گیند پر دماغ کو حاضر رکھنے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے، اسی سے ایک اچھا فیلڈر بنتا ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ بیٹنگ کے ساتھ ساتھ فیلڈنگ میں بھی خود کو منواؤں۔ میرا ہدف ہے کہ جب بھی کرکٹ کو خیرباد کہوں تو ملک کے لیے کوئی ایسا کام کرتا ہوا جاؤں جس کی وجہ سے میرا نام یاد رکھا جائے۔
فواد عالم ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009ء جیتنے والے پاکستانی دستے کا حصہ تھے، اور لارڈز کے میدان پر جن کھلاڑیوں کو تاریخی جشن منانے کا موقع ملا، ان میں فواد بھی شامل تھے۔ کہتے ہیں کہ عالمی اعزاز سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتنے کے بعد میرے جذبات بھی ویسے ہی تھے جیسے ہر پاکستانی کے تھے اور ان احساسات کو الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔
ایک سوال کے جواب میں فواد نے کہا کہ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے ہر ٹیم کے خلاف کھیلنا اچھا لگتا ہے لیکن بھارت کے خلاف کھیلنے کی بات ہی الگ ہے۔ فواد کو کیریئر میں تین مرتبہ بھارت کے خلاف کھیلنے کا موقع ملا، ایک بار انہوں نے ناقابل شکست 32 رنز بنائے اور باقی دونوں مقابلو ں میں ان کی باری ہی نہیں آئی۔
فواد عالم سری لنکا پریمیئر لیگ بھی کھیل چکے ہیں جہاں انہوں نے یووا نیکسٹ کی نمائندگی کی۔ اس تجربے کے بارے میں فواد کا کہنا ہے کہ کسی دوسرے ملک میں جاکر کھیلنے کا لطف الگ ہی ہے خاص طور پر جب آپ کو مختلف ملکوں کے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے اور سیکھنے کا موقع ملے۔ اسی طرز پر پاکستان سپر لیگ کے انعقاد کا منصوبہ زیر غور ہے جس پر فواد کہتے ہیں کہ چاہے پاکستان میں ہو یا متحدہ عرب امارات میں پی ایس ایل کا انعقاد ضرور ہونا چاہیے۔ اس سے مقامی کھلاڑیوں کو بین الاقوامی کرکٹرز کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملے گا اور وہ ایسا تجربہ حاصل کریں گے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔
صرف تین ماہ بعد کرکٹ کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ ورلڈ کپ شروع ہو رہا ہے جس میں پاکستان کے امکانات کے بارے میں فواد کا کہنا تھا کہ کمزور ترین باؤلنگ کے باوجود پاکستان جس طرح اس وقت کھیل رہا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ورلڈ کپ میں پاکستا ن کے امکانات موجود ہیں لیکن آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی وکٹوں پر اصل امتحان بیٹنگ کا ہوگا۔ اگر بلے باز چل پڑے تو پاکستان عالمی چیمپئن بن سکتا ہے۔