پاکستان اور نیوزی لینڈ کے یادگار ٹیسٹ مقابلے – قسط2

1 1,028

اگر دو دن کا کھیل باقی ہو اور میزبان کو جیتنے کے لیے صرف 127 رنز کا ہدف درپیش ہو تو باؤلنگ کرنے والی ٹیم صرف اسی صورت میں جیت سکتی ہے کہ اس کے گیندباز وسیم اکرم اور وقار یونس ہوں۔ جب دونوں 'ڈبلیوز' اپنے عروج پر تھے تو انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف یہ کارنامہ بھی انجام دیا تھا اور ہملٹن کے مقام پر بلیک کیپس کو صرف 93 رنز پر ڈھیر کردیا تھا۔

پاکستان کرکٹ، بلکہ عالمی باؤلنگ کی تاریخ بھی، وسیم اکرم اور وقار یونس کے بغیر ادھوری ہے۔ قومی کرکٹ تاریخ کے جس سفر کا آغاز فضل محمود سے ہوا اور سرفراز نواز اور عمران خان کے ساتھ اس نے ایک اہم موڑ لیا، وسیم اور وقار کے ذریعے ایسے مقام پر پہنچی کہ آج بھی دنیا بھر کے تیز گیندباز پہنچنا چاہتے ہیں۔

پاکستان 1992ء میں نیوزی لینڈ کے انہی میدانوں پر دو یادگار مقابلے جیتنے کے بعد عالمی کپ کے فائنل تک پہنچا تھا جہاں اس نے انگلستان کو شکست دے کر پہلی اور آخری بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ صرف 10 ماہ بعد جنوری 1993ء میں پاکستان ایک مرتبہ پھر ہملٹن کے اسی میدان پر موجود تھا جہاں عالمی کپ کے دوران دو مقابلے کھیلے گئے تھے۔ اس بار پاکستان واحد ٹیسٹ مقابلے کھیلنے کے لیے یونیورسٹی اوول میں موجود تھا کہ جہاں نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے گیندبازی سنبھالی اور پ اکستان کے صرف 12 رنز پر تین کھلاڑیوں سے محروم کردیا۔ پاکستان کے کپتان جاوید میانداد کے 92 رنز کے علاوہ کوئی بلے باز کیوی باؤلرز کے سامنے ڈٹ نہ سکا اور مرفی سوا کی 5 اور ڈینی موریسن کی 3 وکٹوں نے پاکستانی اننگز کو صرف 216 رنز تک محدود کردیا۔

نیوزی لینڈ اگلے پچھلے تمام بدلے چکانے کے لیے بے تاب تھا اور مارک گریٹ بیچ اور بلیئر ہارٹ لینڈ کے درمیان پہلی ہی وکٹ پر 108 رنز کی شراکت داری اس بات کا ثبوت تھی۔ پاکستان کے برق رفتار باؤلرز کے سامنے ان بیٹنگ خوب رہی لیکن جیسے ہی ہارٹ لینڈ آؤٹ ہوئے، وکٹوں کا نہ گرنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ وقار کی چار اور وسیم اکرم اور مشتاق احمد کی تین، تین وکٹوں کی بدولت نیوزی لینڈ 264 رنز تک ہی محدود رہا۔

پاکستان کے لیے خسارہ صرف 48 رنز تک محدود رہا اور اب بلے بازوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ باؤلرز کی محنت وصول کریں لیکن پاکستان کی دوسری اننگز پہلی اننگز سے بھی بدتر رہی۔ عامر سہیل نے 'پیئر' حاصل کیا۔ ان کے علاوہ رمیز راجہ، آصف مجتبیٰ، سلیم ملک اور جاوید میانداد کی وکٹیں گریں تو اسکور بورڈ پر صرف 39 رنز موجود تھے۔ اس مرحلے پر راشد لطیف اور انضمام الحق نے اننگز سنبھالنے کی کوشش کی اور 80قیمتی رنز کا اضافہ کیا۔ راشد 33 اور انضمام 75 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے اور پاکستان کی دوسری اننگز کی بساط صرف 174 رنز پر لپیٹ دی گئی۔

ڈینی موریسن کی پانچ وکٹوں کی شاندار کارکردگی نے نیوزی لینڈ کو واحد ٹیسٹ جیتنے کے بہت قریب پہنچا دیا تھا کیونکہ اسے صرف 127 رنز کی ضرورت تھی اور دو دنوں کا کھیل باقی تھا اور سب سے بڑھ کر ان کا سامنا وسیم اکرم اور وقار یونس سے تھا۔ جنہوں نے یادگار کارکردگی پیش کی اور صرف 93 رنز تک نیوزی لینڈ کے تمام بلے بازوں کو ٹھکانے لگا دیا۔ صرف اینڈریو جونز اور وکٹ کیپر ایڈم پرورے کی باریاں دہرے ہندسے میں داخل ہو سکیں جبکہ تین بلے باز صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے۔

پاکستان کی 33 رنز کی جیت کے لیے وقار یونس نے 22 اور وسیم اکرم نے 45 رنز دے کر پانچ، پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ وسیم اکرم کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

اگر وسیم اور وقار کی مشترکہ باؤلنگ کے حامل بہترین مقابلوں کی یاد تازہ کی جائے تو 1993ء کا یہ ہملٹن ٹیسٹ ان مقابلوں میں سے ایک ہوگا۔