دبئی ٹیسٹ دلچسپ مقابلے کے بعد ڈرا، سیریز میں پاکستان کی ناقابل شکست برتری
نیوزی لینڈ ٹاس جیتنے، پہلی اننگز میں 403 رنز جوڑنے اور پہلی اننگز میں 287 رنز پر پاکستان کے 8 کھلاڑی آؤٹ کرنے کے باوجود مقابلہ نہ جیت سکا۔ یوں پاکستان کی سیریز میں ایک-صفر کی برتری اب ناقابل شکست ہوگئی ہے اور نیوزی لینڈ کے لیے آخری ٹیسٹ جیتنا ضروری ہوگیا ہے۔
دبئی میں کھیلا گیا سیریز کا دوسرا ٹیسٹ آخری دو روز سرفراز احمد اور روس ٹیلر کی سنچریوں کی وجہ سے دونوں ٹیموں کی طرف جھکا۔ جس میں پاکستان کو آخری دن 72 اوورز میں 261 رنز کا ہدف ملا لیکن ایک انتہائی ٹوٹی پھوٹی وکٹ پر اسپنرز کا مقابلہ کرتے ہوئے پاکستان 196 رنز ہی بنا سکا۔ نیوزی لینڈ کے اسپن گیندبازوں کو ٹاس میں کامیابی کی بدولت آخری اننگز میں پاکستان کی بیٹنگ لائن کے بخیے ادھیڑنے کا بہترین موقع ملا تھا۔ ادھڑی ہوئی پچ پر گیند کئی کئی گز ٹرن لے رہی تھی لیکن اسپن باؤلرز وہ کارکردگی پیش نہ کرسکے جن کی ان سے امید تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 75 رنز پر پاکستان کی ابتدائی چار وکٹیں حاصل کرنے کے بعد وہ اننگز کی بساط نہ لپیٹ سکے۔ پاکستان کی دوسری اننگز میں یونس خان کے 44، شان مسعود کے 40 اور اسد شفیق کے ناقابل شکست 41 رنز قابل ذکر رہے۔
ابوظہبی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں ٹاس کے اہم کردار کے بعد دونوں کپتانوں کی نظریں دبئی میں بھی "سکے" پر مرکوز تھیں کہ وہ کس کے حق میں پلٹتا ہے۔ اس مرتبہ قرعہ فال نیوزی لینڈ کے نام نکلا اور برینڈن میک کولم نے پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ 77 رنز کی افتتاحی شراکت داری کے بعد نیوزی لینڈ کے بلے باز مقابلے پر اس طرح حاوی ہوئے کہ پاکستانی باؤلرز دن بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد صرف 3 وکٹیں حاصل کرسکے۔ پہلے دن کے اختتام پر اسکور بورڈ پر موجود 243 رنز کا مجموعہ نیوزی لینڈ کو عین اسی مقام پر پہنچا گیا تھا، جہاں سے پاکستان نے گزشتہ تین مقابلوں میں فتح حاصل کی تھی۔
ان فارم ٹام لیتھم کی ایک اور سنچری اننگز نیوزی لینڈ کے اسکور کارڈ میں سب سے نمایاں تھے۔ وہ دوسرے دن ایک رن کا اضافہ بھی نہ کرسکے اور 137 رنز بنانے کے بعد راحت علی کے ہاتھوں آؤٹ ہوگئے۔ اس کے بعد پاکستان کے گیندبازوں کی باری تھی جنہوں نے 278 رنز پر نیوزی لینڈ کے 6 کھلاڑی آؤٹ کردیے۔ یہاں وکٹ کیپر بریڈلے-جان واٹلنگ اور مارک کریگ کے درمیان ساتویں وکٹ پر 68 رنز کی شراکت داری نے پاکستانی خیمے میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔ مجموعی طور پر نیوزی لینڈ کی آخری چار وکٹوں نے 125 رنز کا اضافہ کرکے اسکور کو 403 رنز تک پہنچا دیا۔ لیتھم کے 137 رنز کے علاوہ برینڈن میک کولم اور مارک کریگ کی 43، 43، واٹلنگ کی 39 اور ایش سودھی کی 32 رنز کی ناقابل شکست اننگز سب سے نمایاں رہیں۔
پاکستان کی جانب سے ذوالفقار بابر نے 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ دو، دو وکٹیں احسان عادل اور یاسر شاہ کو ملیں۔ ایک، ایک کھلاڑی کو اظہر علی اور راحت علی نے بھی ٹھکانے لگایا۔
دوسرے روز کے اختتامی اوورز کھیلنے کے لیے پاکستان کے اوپنرز میدان میں اترے اور زیادہ دیر حریف باؤلرز کو زحمت نہیں دی۔ صرف 32 رنز پر شان مسعود اور توفیق عمر دونوں پویلین میں بیٹھے تھے اور ذمہ داری ایک مرتبہ پھر اظہر علی اور یونس خان کے کاندھوں پر تھی۔ دونوں نے تیسرے دن افتتاحی سیشن میں جم کر بیٹنگ کی اور تیسری وکٹ پر 113 رنز کا اضافہ کیا اور جب دن کے آخری سیشن کا آغاز ہوا تو پاکستان 192 رنز پر صرف تین وکٹوں کے نقصان کے ساتھ بہتر مقام پر موجود تھا۔ لیکن دن ڈھلتے ڈھلتے مزید تین وکٹوں کا نقصان پاکستان کو ایک مرتبہ پھر پچھلے قدموں پر دھکیل گیا۔ کریز پر واحد مستند بلے باز سرفراز احمد تھے، جنہوں نے بعد ازاں چوتھے دن آغاز ہی میں یاسر شاہ، احسان عادل اور ذوالفقار بابر کا ساتھ چھوٹ جانے کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور آخری وکٹ پر راحت علی کے ساتھ 81 رنز کا اضافہ کرکے نیوزی لینڈ کی برتری کا تقریباً خاتمہ ہی کردیا۔
سرفراز نے اپنی تیسری ٹیسٹ سنچری بنائی اور شاندار فارم کا ثبوت دیا۔ انہوں نے 195 گیندیں کھیلیں اور 16 چوکوں کی مدد سے 112 رنز بنانے کے بعد پاکستان کے آؤٹ ہونے والے آخری کھلاڑی۔ پاکستان کے 393 رنز میں اظہر علی کا 75 اور یونس خان کا 72 رنز کے ساتھ بہترین حصہ رہا جبکہ اسد شفیق نے 44 رنز بنائے۔
کو صرف 10رنز کی برتری ملنے کے بعد نیوزی لینڈ کے حوصلے ٹوٹتے دکھائی دے رہے تھے۔ صرف 79 رنز پر اس کے چار ابتدائی بلے باز آؤٹ ہوئے تو مقابلہ بہت ہی دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا۔ نیوزی لینڈ نے دوسری اننگز کا آغاز بہت تیز رفتاری کے ساتھ کیا تھا اور اوپنرز ٹام لیتھم اور برینڈن میک کولم نے صرف 11 اوورز میں 42 رنز جوڑ کر ایک بڑے ہدف کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ لیکن لیگ سلپ میں اسد شفیق کے ایک شاندار کیچ نے ٹام لیتھم کی اننگز کا خاتمہ کیا تو نیوزی لینڈ کے حوصلے ٹوٹنے لگے۔ ذوالفقار بابر نے مسلسل دو اوورز میں کین ولیم سن اور میک کولم کو ٹھکانے لگایا اور دوسرے اینڈ سے یاسر شاہ نے کوری اینڈرسن کو بولڈ کرکے مقابلے میں جان ڈال دی۔
سیریز میں کئی ناکامیوں کا منہ دیکھنے والے تجربہ کار روس ٹیلر کے لیے یہ نظارہ تکلیف دہ تھا۔ نیوزی لینڈ کے لیے میچ بچانے کا انحصار اب ان کی اننگز پر تھا۔ ایک دو ساتھی مزید ان کا ساتھ چھوڑ گئے لیکن ٹیلر نے ہمت کا دامن نہ چھوڑا اور جب چوتھا دن مکمل ہوا تو 77 رنز کے ساتھ کریز پر موجود تھے اور نیوزی لینڈ صرف 167 رنز پر 6 وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا۔ مجموعی برتری 177 رنز کی ضرور تھی لیکن پاکستان کو جیتنے سے روکنے کے لیے نیوزی لینڈ کو ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت تھی جو اس نے پانچویں دن روس ٹیلر کی بدولت کیا بھی۔
پاکستان کو جلد از جلد حریف کی اننگز لپیٹنے کی پڑی ہوئی تھی اور اس مقصد کے حصول میں روس ٹیلر سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ خاص طور پر ساتویں وکٹ پر مارک کریگ کے ساتھ 60 رنز کی قیمتی شراکت داری نے پاکستان کے جیتنے کی راہ مسدود کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ٹیلر بارہویں ٹیسٹ سنچری بنانے کے بعد یاسر شاہ کی گیند پر اسٹمپڈ ہوئے۔ 133 گیندوں پر 12 چوکوں سے مزین اس باری میں انہوں نے 104 رنز بنائے اور بلاشبہ نیوزی لینڈ کے لیے میچ بچایا۔ کريگ نے 34 رنز کے ساتھ ان کا بھرپور ساتھ دیا اور بعد ازاں نیوزی لینڈ نے 250 رنز 9 کھلاڑی آؤٹ پر اننگز ڈکلیئر کردی اور کھانے کے وقفے سے قبل پاکستان کو جیتنے کے لیے 261 رنز کا ہدف دیا۔
یہ کوئی بہت بڑا ہدف تو نہیں تھا لیکن آخری روز پچ کی جو حالت تھی اس پر ایش سودھی بھی شین وارن بنے ہوئے تھے۔ ٹوٹی پھوٹی وکٹ پر ٹپہ کھا کر بہت زیادہ ٹرن لے رہی تھی اور پاکستان کے بلے بازوں کے حاضر دماغی کے ساتھ کھیلنے کی سخت ضرورت تھی۔ توفیق عمر نے تو ایک اور ناکامی کا منہ دیکھا اور صرف 4 رنز بنانے کے بعد لوٹ آئے لیکن شان مسعود نے اچھی اننگز کھیلی۔ بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے اوپنر کی 40 رنز کی اننگز کی سب سے اہم جھلک وہ چھکا تھا جو انہوں نے سودھی کو رسید کیا۔ پچ کے انتہائی دائیں کنارے پر ٹپہ پڑنے کے بعد گیند بہت تیزی کے ساتھ اندر کی جانب آئی جس کو سمجھتے ہوئے شان نے خوبصورتی سے پل کیا اور گیند کو خالی اسٹینڈز میں پہنچا دیا۔ پاکستان ہدف کی جانب بہترین پیشقدمی کرتادکھائی دے رہا تھا کہ اظہر علی کا آؤٹ ہونا اسے بڑا دھچکا پہنچا گیا۔ مارک کریگ کی فل ٹاس، جس پر اظہر علی میدان میں کسی بھی سمت چھکا لگا سکتے تھے، بدقسمت سے ٹھیک سے بلے پر نہیں آئی اور سیدھا کور پوزیشن پر کھڑے جمی نیشام کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ 24 رنز کی اننگز اور 62 رنز کی شراکت داری اختتام کو پہنچی اور پاکستان کی اننگز کچھ دیر کے لیے لڑکھڑا گئی۔ اسی اینڈ سے پہلے ٹرینٹ بولٹ کی گیند کو گلانس کرنے کی ناکام کوشش شان مسعود کے لیے ایل بی ڈبلیو آؤٹ کا پروانہ ثابت ہوئی تو اگلے ہی اوور میں مصباح الحق کا وکٹوں کے پیچھے کیچ دے دینا پاکستان کو 75 رنز پر 4 وکٹوں سے محروم کرگیا۔ بولٹ کے ان دو جھٹکوں سے پاکستان کو میچ بچانے کے لالے پڑ گئے۔
اس مرحلے پر یونس خان اور اسد شفیق نے پانچویں وکٹ پر 74 رنز کا اضافہ کیا اور بہت سمجھداری کے ساتھ بیٹنگ کی۔ یونس 44 رنز بنانے کے بعد مارک کریگ کی گیند پر سلپ میں دھر لیے گئے جس کے بعد اسد شفیق اور سرفراز احمد نے ناقابل شکست 47 رنز کی ساجھے داری کی اور مقابلہ بچا لیا۔
پانچویں روز وکٹ کی حالت اور ایسی صورتحال میں ہاتھ پیر پھول جانے کی پاکستانی بلے بازوں کی پرانی عادت کو دیکھتے ہوئے میچ بچانا پاکستان کے لیے جیتنے سے کم نہیں ہے۔ خاص طور پر ابھی سیریز میں ایک مقابلہ باقی ہے اور ناقابل شکست برتری کے ساتھ پاکستان مزید اطمینان کے ساتھ شارجہ جاسکتا ہے جہاں 26نومبر سے تیسرا ٹیسٹ شروع ہوگا۔
آخر میں روس ٹیلر کو میچ بچاؤ اننگز کھیلنے پر بہترین کھلاڑی کا اعزاز دیا گیا اور بلاشبہ اگر ٹیلر یہ سنچری نہ تراشتے تو شاید پاکستان دبئی ہی میں سیریز کا فیصلہ کر چکا ہوتا۔