انگلستان عالمی کپ سے قبل مخمصے میں، کیا قیادت کی تبدیلی کا وقت گزر چکا؟
جب 2012ء کے اوائل میں انگلستان نے پاکستان کے ہاتھوں ٹیسٹ سیریز میں کلین سویپ کی ہزیمت اٹھائی تھی، تو اسی دورے پر ایک روزہ مقابلوں میں چار-صفر سے جیت کر ثابت کردیا تھا کہ محدود اوورز کی کرکٹ میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ پھر اسی سال ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے خلاف شاندار فتوحات بھی حاصل کیں لیکن چیمپئنز ٹرافی 2013ء کے فائنل میں ہاتھ آئے مقابلے کے ضائع ہوجانے سے ٹیم کے حوصلے ایسے پست ہوئے ہیں کہ ابھی تک ایک روزہ کرکٹ ٹیم کے اوسان بحال نہیں ہو سکے۔ سری لنکا کے خلاف جاری سیریز کے آخری مقابلے سے پہلے ہی شکست کے ساتھ ہی گزشتہ 7 ایک روزہ سیریز میں انگلستان نے چھٹی شکست کو گلے لگا لیا ہے۔
اپنے میدانوں پر سری لنکا اور بھارت کے خلاف شکست کے بعد انگلستان کے بہترین موقع تھا کہ وہ سری لنکا نے اپنی شکست کا بدلہ لے۔ سری لنکا کی عالمی کپ کی تیاریوں کو بدترین دھچکا لگ چکا تھا جو بھارت کے ہنگامی دورے میں پانچ-صفر کی ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا۔ لیکن انگلستان اس شکست خوردہ اور پست حوصلے رکھنے والے سری لنکا کے خلاف بھی سیریز نہ جیت سکا اور حتمی مقابلے سے پہلے ہی سیریز سری لنکا کو پیش کردی ہے۔
فروری اور مارچ میں آسٹریلیا و نیوزی لینڈ کے میدانوں میں ہونے والے ورلڈ کپ سے پہلے اس وقت تیاریوں کے لحاظ سے شاید انگلستان کا حال آئرلینڈ سے بھی برا ہے۔ انفرادی سطح پر ایک، دو کھلاڑیوں کو چھوڑ دیں تو تمام اہم بلے باز فارم سے باہر ہیں، گیندباز بے ضرر دکھائی دیتے ہیں، حوصلوں کو مہمیز دینے والی فتوحات شاذ ہی مل رہی ہیں، آئندہ کی منصوبہ بندی واضح نہیں اور مستقبل تاریک ہے۔ اسصورت میں نتیجہ شکستوں کے علاوہ کیا نکل سکتا ہے؟ دستے نے سال بھر میں صرف اسکاٹ لینڈ اورویسٹ انڈيز کے خلاف ہی ون ڈے سیریز جیتیں اور اب عالمی کپ سے عین پہلے دوراہے پر کھڑا ہے کہ آیا ایلسٹر کک ہی کی قیادت میں آگے بڑھا جائے یا درپیش بڑے امتحان سے پہلے کپتان تبدیل کردیا جائے۔
پل کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے، اور اب انگلش کرکٹ کے کرتا دھرتا افراد کا ہوش میں آنا شاید کارگر نہ ہو۔ اس موقع پر کوچ پیٹر مورس کا بیان کہ کک کی عالمی کپ کے دستے میں شمولیت کی ضمانت نہیں دے سکتے، غالباً بے وقت کی راگنی ثابت ہوگا لیکن انگلستان کو کوئی بڑا فیصلہ اٹھانا ہوگا۔ اگر کک کو قیادت سے باہر ہی کرنا تھا تو اس کا سب سے اچھا وقت رواں سال کے اوائل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں چار-ایک کی شکست کے بعد تھا، لیکن موقع دیے جاتے رہے، وقت ضائع ہوتا رہا اور اب مزید مواقع موجود نہیں ہیں۔
بلاشبہ کک ایک بہترین بلے باز ہیں، 8 ہزار ٹیسٹ اور 3 ہزار ون ڈے رنز ان کی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں، لیکن قیادت ان کے بس کا روگ نہیں ہے، یہ ان کی اپنی صلاحیتوں کو بھی گھن لگا رہی ہے۔ ان کو اضافی ذمہ داری دینے کے بجائے اس بوجھ کو کسی دوسرے کھلاڑی پر منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہر دورے میں ان کی قیادت سے نئی امیدیں وابستہ کی گئیں اور اتنا وقت ضائع کردیا گيا کہ اب قیادت کا معاملہ گلے کی ہڈی بن چکا ہے، جو نہ اگلی جاسکتی اور نہ ہی نگلی جارہی ہے۔
اگر انگلستان عالمی کپ سے چند ہفتے کے فاصلے پر قیادت تبدیل کرتا ہے تو نیا کپتان بھی ہر گز نتائج کی ضمانت نہیں دے گا۔ کک کی بدترین فارم ان کو حتمی دستے سے ہی باہر کررہی ہے۔ وہ پچھلے 21 مقابلوں میں صرف ایک نصف سنچری بنا سکے ہیں جبکہ کپتان کی حیثیت سے کارکردگی تو سب کے سامنے ہے ہی، اس صورتحال میں دورۂ سری لنکا کے خاتمے کے بعد چند روز انگلستان اور کک کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہوں گے۔ ان دنوں میں کیے گئے فیصلوں کے عالمی کپ کی مہم پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔