عالمی کپ سے پہلے حارث سہیل کی دریافت، اندھیرے میں روشنی کی کرن

0 1,020

پہلے سری لنکا، پھر آسٹریلیا اور اب نیوزی لینڈ، پاکستان کی ایک روزہ کرکٹ کے لیے 2014ء ایک مایوس کن سال رہا۔ اوائل میں ایشیا کپ کا اعزاز چھن گیا اور اس کے بعد دورۂ سری لنکا میں برتری حاصل کرنے کے باوجود شکست ہوئی، پھر آسٹریلیا نے پاکستان کو "ہوم گراؤنڈ" یعنی متحدہ عرب امارات میں چاروں خانے چت کیا اور اب سال کے جاتے جاتے عالمی درجہ بندی میں ساتویں نمبر پر موجود نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست بھی نصیب میں لکھی ہوئی تھی۔ اب جبکہ عالمی کپ کے آغاز میں دو ماہ کا عرصہ بھی باقی نہیں بچا، ان پے در پے شکستوں نے ٹیم کی مجموعی اہلیت اور کئی کھلاڑیوں کی قابلیت پر سوالیہ نشان اٹھا دیا ہے۔ شاید اسد شفیق کے ایک روزہ کیریئر کے سامنے 'فل اسٹاپ' لگ جائے، "ڈیڈی آف سوئنگ" کے طور پر شہرت پانے والے انو رعلی شاید دوبارہ قومی کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرتے نہ دکھائی دیں اور شاید شاید کہ حالیہ سیریز میں بنائی گئی سنچری بھی یونس خان کے ایک روزہ کیریئر کو نہ بچا سکے۔ لیکن اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں نوجوان آل راؤنڈر حارث سہیل کی صورت میں امید کی ایک کرن ضرور نمودار ہوئی ہے، جنہوں نے سیریز میں پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بھی بنائے اور زیادہ وکٹیں لینے والے تین گیندبازوں میں بھی شامل رہے۔

اگر شاہد آفریدی کی فارم برقرار رہی اور حارث سہیل بھی ورلڈ کپ میں شامل ہوئے تو پاکستان کا لوئر مڈل آرڈر بہت مضبوط ہوسکتا ہے (تصویر: AFP)
اگر شاہد آفریدی کی فارم برقرار رہی اور حارث سہیل بھی ورلڈ کپ میں شامل ہوئے تو پاکستان کا لوئر مڈل آرڈر بہت مضبوط ہوسکتا ہے (تصویر: AFP)

پاک-نیوزی لینڈ سیریز سے قبل حارث سہیل بین الاقوامی سطح پر ایک غیر معروف نام تھے۔ ایک ایسا کھلاڑی جسے سنجیدہ حلقوں کے مطالبوں پر بین الاقوامی دوروں پر لے جایا تو گیا لیکن کبھی مواقع نہیں دیے گئے۔ حارث نے بھارت، جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے دورے ضرور کیے لیکن بات سیر سپاٹوں سے آگے بڑھتی نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ زمبابوے اور ویسٹ انڈیز کے خلاف دو سیریز میں جب انہیں بین الاقوامی کرکٹ کے مواقع ملے تو وہ خود اپنی صلاحیتوں سے انصاف نہ کرسکے، نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا ایک روزہ مقابلوں کا کیریئر صرف 4 مقابلوں پر ہی ٹکا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ پاکستان نے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے لیے انہیں عمر اکمل جیسے اہم کھلاڑی کی جگہ طلب کیا اور پہلے ہی مقابلے میں انہوں نے فاتحانہ اننگز کھیل کر اپنی اہلیت ثابت کردی۔ دبئی میں ہونے والے مقابلے میں جب پاکستان 247 رنز کے تعاقب میں صرف 124 رنز پر چھ وکٹوں سے محروم تھا تب حارث نے شاہد آفریدی کے ساتھ مل کر پاکستان کو ایک ناقابل یقین فتح تک پہنچایا۔ حارث نے 85 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی، فاتحانہ چوکا بھی لگایا اور یوں بین الاقوامی سطح پر اپنی آمد کا حقیقی اعلان بھی کیا۔ 109 گیندوں پر مشتمل اس اننگز میں ایک چھکا اور 5 چوکے بھی شامل تھے۔ محمد حفیظ پر پابندی کے بعد حارث سہیل پاکستان کی لائن اپ میں ایک حقیقی آل راؤنڈر کی کمی کو بہترین انداز میں پورا کرتے دکھائی دیے۔

ویسے حارث سہیل ڈومیسٹک کرکٹ میں خاصا مقبول نام ہیں، اور یہاں پیش کردہ کارکردگی ہی ہے جس نے حارث کو قومی ٹیم تک پہنچایا ہے۔ 57 فرسٹ کلاس مقابلوں میں 52 کا اوسط، 11 سنچریاں اور 23 نصف سنچریاں ان کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہیں سیریز میں عمر اکمل پر ترجیح دیتے ہوئے شامل کیاگیا اور پہلے ہی مقابلے میں انہوں نے ثابت کردیا کہ یہ فیصلہ کیوں درست تھا۔

حارث سہیل نے نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے اور تیسرے مقابلے میں طویل اننگز تو نہیں کھیلیں لیکن دونوں میں تین، تین وکٹیں حاصل کرکے اپنی باؤلنگ صلاحیتوں کا مظاہرہ ضرور کیا۔ آخری ایک روزہ میں جب پاکستان میچ کے ساتھ ساتھ سیریز میں بھی شکست کے دہانے پر تھا، حارث نے 65 رںز کی اننگز کھیلی۔ اگر انہیں دوسرے کنارے پر کوئی ساتھ دینے والا میسر آ جاتا تو شاید کہانی پہلے ایک روزہ سے مختلف نہ ہوتی لیکن اس مرتبہ کوئی ان کا ساجھے دار نہ بنا۔

حارث نے سیریز میں 58.75 کے اوسط کے ساتھ 235 رنز بنائے، جو 83 سے زیادہ کے بہترین اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ بنائے گئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے 36 کے اوسط کے ساتھ 6 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ انہیں اپنی باؤلنگ پر مزید محنت کی ضرورت ہوگی لیکن موجودہ حالت میں بھی حارث ایک ایسا مکمل "پیکیج" ہیں جس کی پاکستان کو سخت ضرورت ہے۔

اگر شاہد آفریدی کی فارم برقرار رہی اور حارث سہیل بھی عالمی کپ کے لیے حتمی دستے میں شامل ہوئے تو لوئر مڈل آرڈر میں دو بہترین آل راؤنڈرز کا اضافہ عالمی کپ میں پاکستان کے امکانات کو خاصا بہتر بنا سکتا ہے، جو فی الحال تو تقریباً صفر ہیں۔