دھونی کا متبادل کون؟

0 1,051

مہندر سنگھ دھونی دنیائے کرکٹ کا ایسا نام ہے جس نے شہرت اور کامیابی کی بلندیاں بڑی تیزی سے سر کی ہیں۔ سال 2004ء میں دھونی نے اپنے بین الاقوامی کرکٹ کا آغاز کیا، اور محض3سال بعد وہ باضابطہ طور پر قومی ٹیم کے کپتان بھی مقرر کر دیے گئے، جس کے بعد ٹیم انڈیا ان کی قیادت میں کامیابی کے سفر پر گامزن ہوگئی۔ دھونی نے نہایت ہی کم وقت میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے جو ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ 2007ء میں پہلا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی۔ پھر 2010ء میں ایشیا کپ، 2011ء میں عالمی کپ اور 2013ء میں چیمپئنز ٹرافی، بھارت نے ان کی رہنمائی میں تمام عالمی خطابات پر قبضہ جمایا۔ انہی کی زیر قیادت بھارت پہلی بار عالمی درجہ بندی میں سرفہرست مقام تک پہنچا۔ آسٹریلیا جیسے حریف کے مقابلے میں، جسے زیر کرتے ہوئے ہمیشہ بھارت کے پسینے چھوٹے ہیں، لیکن دھونی کی قیادت میں بھارت نے آسٹریلیا کو تین ٹیسٹ سیریز میں شکست کی ہزیمت سے دوچار کیا جس میں 2012-13ء کی تاریخی وائٹ واش سیریز بھی شامل تھی۔

کیا دھونی کا متبادل واقعی تلاش کرلیا گیا ہے؟ کیا ویراٹ کوہلی کو دھونی پرفوقیت دی جا سکتی ہے؟ یہ ایک مشکل سوال ہے (تصویر: AP)
کیا دھونی کا متبادل واقعی تلاش کرلیا گیا ہے؟ کیا ویراٹ کوہلی کو دھونی پرفوقیت دی جا سکتی ہے؟ یہ ایک مشکل سوال ہے (تصویر: AP)

لیکن یہ بھی المیہ ہے کہ دھونی کی قیادت میں ہی ٹیم انڈیا آسٹریلوی سرزمین پر بری طرح پریشان نظر آئی۔ بیرون ملک بھارت کو پیش آنے والے مسائل کا حل نکالنے میں دھونی تک ناکام رہے ہیں اور اب یہی ناکامی ان کے اپنے لیے سخت مشکلات کھڑی کررہی ہے۔

کامیابی و کامرانی کے جس زینے پر دھونی پوری رفتار کے ساتھ قدم بڑھا رہے تھے، اب اس کا زور کم ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ گزشتہ دو تین سالوں میں دھونی کا نام تنازع کے ساتھ ہی جڑتا نظر آیا ہے۔

انڈین پریمیئر لیگ کی خاطر قومی کرکٹ سے بے توجہی، جارحانہ قیادت کے فقدان اور بیرون ملک متواتر شکستوں پر دھونی کے ناقدین کی آوازوں میں کرختگی آ چکی ہے اور اب اس کی گونج مزید تیز ہوچکی ہے۔ خصوصاً آئی پی ایل اسپاٹ فکسنگ معاملے پر بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے سابق صدر اور چنئی سپر کنگز کے مالک این شری نواسن کو عدالت عظمیٰ کے ذریعے پڑنے والی پھٹکار کے بعد دھونی کی حیثیت مزید کمزور ہوگئی ہے۔ کیونکہ دھونی کی پشت پر شری نواسن تھے، اور اب تو وہ خود اس لائق نہیں تو دھونی کو کس طرح تقویت دے سکیں گے۔

اس نازک صورتحال میں آسٹریلیا میں جاری ٹیسٹ سیریز شاید دھونی کے حق میں زہر قاتل ثابت ہو۔ ابتدائی ٹیسٹ میں کوہلی کی جارحانہ قیادت کا نظارہ کرلینے کے بعد اب دھونی کے متبادل کی باتیں زور پکڑ چکی ہیں۔ دوسرے ٹیسٹ میں دفاعی حکمت عملی کی وجہ سے آسٹریلیا کے ہاتھوں ہونے والی شکست اور اس کے بعد ڈریسنگ روم کے اندرونی معاملات کو ذرائع ابلاغ میں یہ کہہ کر ظاہر کرنا کہ شکست کے اسباب یہی تھے، ظاہر کرتا ہے کہ دھونی کے لیے مشکلات مزید بڑھ رہی ہیں۔ گرچہ دھونی نے تیسرے ٹیسٹ سے پہلے اپنی ہی باتوں کی نفی کی لیکن ان کے انداز سے ظاہر ہوچکا ہے کہ وہ صحافیوں کے سوالوں کے جوابات صاف طور پر نہیں دینا چاہتے اور وہ پریشان ہیں، اور ان کی یہ پریشانی جائز بھی ہے۔

شاید اب وقت آ چکا ہے کہ بھارت ٹیسٹ کے لیے نئے قائد کی مقرر کرے۔ طویل طرز کی کرکٹ میں گزشتہ چند سالوں میں دھونی اپنا اثر دکھانے میں ناکام رہے ہیں خاص طور پر بیرون ملک تو ٹیم انڈیا بالکل ہی بے دانت کی شیر ثابت ہو رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دھونی کا متبادل واقعی تلاش کرلیا گیا ہے؟ کیا ویراٹ کوہلی کو دھونی پرفوقیت دی جا سکتی ہے؟ یہ یقیناً ایک مشکل سوال ہے اور اس کا جواب حاصل کرنے میں کسی بھی قسم کی جلد بازی بھارتی کرکٹ کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔