[سالنامہ 2014ء] پاکستان اور ایک روزہ کرکٹ، زوال کی انتہا

0 1,072

گزشتہ سال ٹیسٹ کرکٹ میں تو پاکستان نے چند ایسی فتوحات حاصل کی ہیں جو کافی عرصے تک یاد رکھی جائیں گی لیکن ایک روزہ طرز اس سال پاکستان بالکل تہی دامن رہا بلکہ اگر اسے ماضی قریب میں پاکستان کی ایک روزہ کرکٹ تاریخ کا بدترین سال کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

پاکستان کو سال کی واحد خوشی شاہد آفریدی نے دی، جب ایشیا کپ میں ان کے دو چھکوں نے بھارت کے لیے خلاف پاکستان کو تاریخی کامیابی عطا کی (تصویر: AFP)
پاکستان کو سال کی واحد خوشی شاہد آفریدی نے دی، جب ایشیا کپ میں ان کے دو چھکوں نے بھارت کے لیے خلاف پاکستان کو تاریخی کامیابی عطا کی (تصویر: AFP)

سال 2013ء میں پاکستان نے بھارت، جنوبی افریقہ اور سری لنکا جیسے مضبوط ملکوں کے خلاف یادگار سیریز فتوحات حاصل کیں اور جب نئے سال میں قدم رکھا تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان کی ایک روزہ کرکٹ نئے سںگ ہائے میل کی جانب گامزن ہوگی۔ اس تصور کو ایشیا کپ میں بھارت اور بنگلہ دیش کے خلاف فتوحات نے یقین بخشا لیکن پھر یہ سب خام خیالی ثابت ہوئی۔ ایشیا کپ کے فائنل میں ناکامی اور طویل آف-سیزن کے بعد ٹیم میں پھوٹ کے آثار دکھائی دینے لگے اور پھر پاکستان دوبارہ فتوحات کی راہ پر گامزن نہ ہوسکا۔ یوں سال 2014ء صرف ایک اچھی یاد کے ساتھ رخصت ہوا، ڈھاکہ میں شاہد آفریدی کے وہ "دو یادگار چھکے" ، جن کی بدولت پاکستان نے ایشیا کپ میں بھارت کو ایک وکٹ سے ہرایا، باقی سب ایک ڈراؤنا خواب تھا۔

پاکستان نے 2013ء میں ٹیسٹ کے برخلاف ایک روزہ کرکٹ میں بہت نمایاں کارکردگی دکھائی تھی۔ سری لنکا، جنوبی افریقہ اور بھارت جیسے سخت حریفوں کو شکست دے کر سال میں کل 7 سیریز جیتیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان کا ایک روزہ دستہ اب عالمی کپ تک مضبوط ہوتا چلا جائے گا لیکن یہ تمام امیدیں دھیمی ہوتی چلی گئیں اور 2014ء توقعات و خدشات سے کہیں زیادہ بدتر ثابت ہوا ۔

2014ء میں پاکستان کی بدترین کارکردگی کا اندازہ لگانا چاہتےہیں؟ یہی کافی ہے کہ پاکستان نے 8 قابل ذکر ٹیموں میں سب سے کم فتوحات حاصل کیں۔ ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ تو ایک طرف افغانستان سے بھی کم ایک روزہ مقابلے جیتے۔ سال بھر میں پاکستان نے کل 16 ون ڈے کھیلے جن میں صرف 6 میں کامیابی ملی، اور باقی 10 میں اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ سال بھر میں صرف دو ایسی فتوحات ہیں جنہیں جامع کہا جا سکتا ہے، ایک افغانستان کے خلاف 72 رنز، دوسری نیوزی لینڈ کے خلاف 147 رنز کی جیت، اس کے علاوہ جو بھی کامیابیاں حاصل کیں، سخت ترین مقابلے کے بعد۔ جیسا کہ ایک وکٹ، تین اور چار وکٹوں کے فرق سے۔

سال 2014ء: سب سے زیادہ ایک روزہ فتوحات حاصل کرنے والی ٹیمیں

ملک مقابلے فتوحات شکستیں برابر مقابلے بہترین مجموعہ کمترین مجموعہ
 سری لنکا 32 20 12 0 317 67
بھارت 24 14 8 1 404 105
آسٹریلیا 18 13 5 0 350 154
جنوبی افریقہ 19 12 6 0 339 180
انگلستان 25 9 16 0 316 99
نیوزی لینڈ 16 9 5 1 314 160
ویسٹ انڈیز 13 7 6 0 363 159
افغانستان 14 6 8 0 302 124
پاکستان 16 6 10 0 364 102
بنگلہ دیش 18 5 12 0 326 58

سال میں پاکستان کو پہلے ہی ون ڈے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جب ایشیا کپ میں اپنے ابتدائی مقابلے میں پاکستان کو سری لنکا کے ہاتھوں 12 رنز کی شکست ہوئی۔ 296 رنز رنز کے تعاقب میں پاکستان اس وقت بہترین مقام پر جب عمر اکمل کریز پر موجود تھے لیکن ان کی 74 رنز کی اننگز تمام ہوتے ہی دوسرے اینڈ سے کپتان مصباح الحق کا ساتھ دینے سے گویا انکار کردیا اور کچھ ہی دیر میں پوری ٹیم لاستھ مالنگا کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔ پھر افغانستان کے خلاف 72 رنز سے کامیابی حاصل کرکے پاکستان نے اپنے اوسان بحال کیے اور پھر اپنی تاریخ کی چند یادگار ترین فتوحات حاصل کیں۔ پہلے ڈھاکہ میں بھارت کو زبردست معرکہ آرائی کے بعد چت کیا۔ پاکستان کی یہ جیت شاہد آفریدی کی مرہون منت تھی جنہوں نے آخری اوور میں روی چندر آشون کو دو مسلسل گیندوں پر دو چھکے رسید کرکے پاکستان کو کامیابی سےہمکنار کیا۔ "لالا" نے آشون کے اوور کی تیسری اور چوتھی گیند کو ڈھاکہ کی فضاؤں کی سیر کروائی اور پھر اس جیت سے حوصلہ پاکر پاکستان نے بنگلہ دیش کے خلاف اگلے مقابلے میں 327 رنز کا ہمالیہ جیسا ہدف بھی عبور کرلیا۔ یہاں بھی شاہد آفریدی کی 25 گیندوں پر 59 رنز کی اننگز کارفرما رہی جس نے پاکستان کو فائنل تک پہنچا دیا لیکن یہ بلند پروازی کسی کام نہ آئی کیونکہ فائنل میں سری لنکا نے پانچ وکٹوں نے کامیابی حاصل کرکے پاکستان کو ایشیا کپ سے محروم کردیا۔

اعزاز جیتنے میں ناکامی کے باوجود پاکستان کی ایشیا کپ مہم کو مکمل ناکام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ صرف بھارت کے خلاف جیت ہی پاکستانی خیمے کے حوصلوں کو بلند کرنے کے لیے کافی تھی لیکن ساڑھے پانچ مہینوں تک کوئی ون ڈے مقابلہ نہ کھیلنے سے کھلاڑیوں کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور جب اگست کے اواخر میں دورۂ سری لنکا میں ایک روزہ مرحلہ شروع ہوا تو پاکستان کو شکستوں کے نئے سلسلے کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلا مقابلہ جیتنے کے باوجود پاکستان لنکا ڈھانے میں بری طرح ناکام ہوا اور اگلے دونوں مقابلوں میں شکست کے ساتھ یہ سیریز ہاتھ سے نکل گئی۔

پاکستان کے لیے سال کا مایوس کن ترین لمحہ نیوزی لینڈ جیسے کمزور حریف کے خلاف ون ڈے سیریز میں ناکامی تھا، جس نے عالمی کپ کی تیاریوں کو تہس نہس کردیا (تصویر: AFP)
پاکستان کے لیے سال کا مایوس کن ترین لمحہ نیوزی لینڈ جیسے کمزور حریف کے خلاف ون ڈے سیریز میں ناکامی تھا، جس نے عالمی کپ کی تیاریوں کو تہس نہس کردیا (تصویر: AFP)

دورۂ سری لنکا میں قومی کرکٹ ٹیم کی اعصابی قوت پر ایک کاری وار پڑا۔ پاکستان کے کامیاب ترین، اور ایک روزہ کرکٹ میں نمبر ایک گیندباز سعید اجمل غیر قانونی باؤلنگ ایکشن کی وجہ سے بین الاقوامی کرکٹ سے باہر کردیے گئے۔ جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ قیادت کے معاملے پر ٹیم کی اندرونی چپقلش نے پوری کردی۔ اکتوبر کے مہینے سے متحدہ عرب امارات کے میدانوں پر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ سیریز اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود پاکستان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی۔ یہ دونوں سیریز پاکستان کے لیے عالمی کپ کی تیاری کے لیے بہترین موقع تھیں۔ پاکستان تجربات کرسکتا تھا، نوجوان کھلاڑیوں کو آزما سکتا تھا اور فتوحات کے ذریعے انہیں اعتماد دے سکتا تھا لیکن انہی پرانے مہروں پر بھروسہ کیا گیا، نوجوانوں کو شاذونادر ہی موقع دیا گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں ہی حریف قابو میں نہ آ سکے۔ آسٹریلیا کے خلاف ابتدائی دونوں مقابلوں میں، 93 رنز اور 5 وکٹوں کی کراری، شکست کے بعد ٹیم اتحاد میں دراڑیں بالکل واضح ہوگئیں کیونکہ مصباح الحق نے آخری ایک روزہ کھیلنے سے انکار کردیا۔ ان کا اچانک دستبردار ہونا ظاہر کرتا تھا کہ کپتان کے معاملے پر صرف ٹیم ہی نہیں بلکہ انتظامیہ بھی تقسیم ہے لیکن بھلا ہو کہ شاہد آفریدی کی قیادت میں بھی پاکستان آسٹریلیا کو شکست نہ دے سکا اور ایک رن کی ہار کے ساتھ پاکستان کو آسٹریلیا کے ہاتھوں کلین سویپ کی ہزیمت اٹھانا پڑی۔

سال کی آخری ایک روزہ سیریز میں پاکستان کو نیوزی لینڈ کے خلاف لازماً جیتنا چاہیے تھا کیونکہ نیوزی لینڈ درجہ بندی میں پاکستان سے پیچھے تھا اور دوسری اہم وجہ یہ کہ اس میں وہ اپنے تمام اہم کھلاڑیوں کے بغیر کھیل رہا تھا۔ کپتان برینڈن میک کولم کے علاوہ دونوں مرکزی تیز گیندباز ٹرینٹ بولٹ اور ٹم ساؤتھی اس سیریز میں نہیں کھیل رہے تھے لیکن اس کے باوجود پاکستان کو کین ولیم سن کی زیر قیادت نوجوان کھلاڑیوں گے ہاتھوں شکست ہوئی۔ زخمی مصباح الحق کی عدم موجودگی میں قیادت شاہد آفریدی کے ہاتھوں میں رہی، جن کی دو دھواں دار نصف سنچریوں نے پاکستان کو دو کامیابیاں ضرور بخشیں لیکن سیریز میں دو-ایک کی برتری حاصل کرنے کے باوجود پاکستان آخری دونوں ایک روزہ میچز میں شکست کھا گیا۔ چوتھے مقابلے میں 7 رنز کی شکست کے بعد بھی پاکستان کے پاس آخری موقع تھا لیکن ابوظہبی میں 68 رنز کی ہار نے سیریز پر مہر ثبت کردی۔ یوں پاکستان نے مجموعی طور پر سال میں ایک کثیر القومی ٹورنامنٹ اور تین باہمی ون ڈے سیریز میں شکست کھائی۔

پاکستان اس وقت عالمی درجہ بندی میں ساتویں نمبر پر ہے۔ 2015ء کے اوائل میں عالمی کپ کو مدنظر رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس اہم ٹورنامنٹ کے لیے پاکستان کی سرے سے کوئی تیاری ہے ہی نہیں۔ یہاں تک کہ آزمائے ہوئے کھلاڑیوں کامران اکمل اور شعیب ملک کی واپسی تک کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ اگر کارکردگی کا یہی سلسلہ جاری رہا تو شاید عالمی کپ ہی کے دوران ٹیم آٹھویں نمبر پر چلی جائے گی۔

مصباح الحق اس سال مکمل طور پر فارم سے باہر رہے، اور ان کی انفرادی کارکردگی کا اثر پاکستان پر بھی ہوا (تصویر: AFP)
مصباح الحق اس سال مکمل طور پر فارم سے باہر رہے، اور ان کی انفرادی کارکردگی کا اثر پاکستان پر بھی ہوا (تصویر: AFP)

اگر انفرادی کارکردگی دیکھی جائے تو پاکستان کے صرف ایک بلے باز نے کوئی کار نمایاں انجام دیا ہے۔ اوپنر احمد شہزاد 16 مقابلوں میں 39.31 کے اوسط کے ساتھ 629 رنز بنانے میں کامیاب رہے، جس میں دو سنچریاں اور چار نصف سنچریاں شامل تھیں۔ ان کے علاوہ کوئی بلے باز 400 رنز بھی نہ بنا سکا۔ عمر اکمل 362، محمد حفیظ 360 اور شاہد آفریدی 354 رنز کے ساتھ دیگر نمایاں بیٹسمین رہے۔

پاکستان کی ان شکستوں کا ایک اہم سبب مصباح الحق کا فارم سے باہر ہوجانا بھی ہے۔ مصباح، جنہوں نے گزشتہ سال سب سے زیادہ نصف سنچریوں کا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا، اس بار 12 مقابلوں میں صرف 23 کے اوسط کے ساتھ 285 رنز بنا سکے۔

سال بھر میں نمایاں ترین کارکردگی سرفراز احمد اور حارث سہیل کی رہی، جن کی وجہ سے مستقبل میں امید کی کوئی کرن نظر آتی ہے۔ سرفراز احمد نے وکٹوں کے پیچھے ذمہ داری انجام دینے کے ساتھ ساتھ 8 مقابلوں میں 36.28 کے اوسط کے ساتھ رنز بھی بنائے جبکہ نوجوان حارث سہیل نے 58.75 کے اوسط کے ساتھ 235 رنز بنا کر اپنی اہلیت کو ثابت کیا۔

سال 2014ء: سب سے زيادہ رنز بنانے والے پاکستانی بلے باز

بلے باز ملک مقابلے رنز بہترین اننگز اوسط سنچریاں نصف سنچریاں
احمد شہزاد پاکستان 16 629 113 39.31 2 4
عمر اکمل پاکستان 13 362 102* 32.90 1 2
محمد حفیظ پاکستان 12 360 76 30.00 0 4
شاہد آفریدی پاکستان 16 354 61 27.23 0 3
فواد عالم پاکستان 8 345 114* 69.00 1 2
مصباح الحق پاکستان 12 285 73 23.75 0 2
سرفراز احمد پاکستان 8 254 65 36.28 0 1
حارث سہیل پاکستان 5 235 85* 58.75 0 2

گیندبازوں میں سعید اجمل کے باہر ہوتے ہی پاکستان کی صلاحیت صفر ہوگئی۔ سعید نے سال بھر میں 6 مقابلوں کھیلنے اور 17 کے اوسط کے ساتھ 12 وکٹیں حاصل کیں۔ باقی گیندبازوں نے ضرور ان سے زیادہ وکٹیں حاصل کی ہوں گی، لیکن ان میں سے کوئی بھی سعید کے اوسط کے قریب نہیں پھٹک سکا۔ شاہد آفریدی 16 وکٹوں کے ساتھ سال کے کامیاب ترین پاکستانی باؤلر رہے، لیکن اس کے لیے انہوں نے 41.56 رنز کا بھاری اوسط دیا۔ محمد عرفان نے 11 مقابلوں میں 15 وکٹیں سمیٹیں لیکن 35.73 کے بڑے اوسط اور 5.28 رنز فی اوورز کی مار سہنے کے بعد۔ وہاب ریاض نے بھی 13 وکٹیں حاصل کیں لیکن ان اکانمی ریٹ ہی 6.15 رہا، جو اس تمام وکٹوں کا اثر زائل کردینے کے لیے کافی ہے۔

سال 2014ء: سب سے زيادہ وکٹیں لینے والے پاکستانی گیندباز

گیندباز ملک مقابلے رنز وکٹیں بہترین باؤلنگ اوسط اکانمی ریٹ
شاہد آفریدی پاکستان 16 665 16 3/37 41.56 4.62
محمد عرفان پاکستان 11 536 15 3/57 35.73 5.28
وہاب ریاض پاکستان 8 396 13 4/65 30.46 6.15
سعید اجمل پاکستان 6 212 12 3/26 17.66 4.00
محمد حفیظ پاکستان 12 261 9 3/29 29.00 4.05
حارث سہیل پاکستان 5 217 6 3/45 36.16 5.16

یہ امر تو یقینی ہے کہ 2015ء پاکستان میں تبدیلی کا سال ہوگا۔ ہمیشہ کی طرح عالمی کپ کے بعد بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہوں گی۔ شاہد آفریدی تو پہلے ہی ایک روزہ کیریئر کو خیرباد کہہ چکے ہیں اور عالمی کپ ان کا آخری ٹورنامنٹ ہوگا جبکہ ممکنہ طور پر مصباح الحق اور یونس خان بھی کم از کم ایک روزہ کرکٹ کو تو خیرباد کہہ ہی دیں گے۔ لیکن ان تینوں تجربہ کار کھلاڑیوں کے بعد قومی کرکٹ کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کون سنبھالے گا؟ اس کی نہ کوئی امید بر آتی ہے، اور نہ صورت نظر آتی ہے۔