دھونی کے لیے اک نئے اور مشکل عہد کا آغاز

1 1,050

آسٹریلیا، انگلستان اور دیگر ممالک کی طرح بھارت کی تاریخ میں ٹیسٹ اور ایک روزہ کرکٹ کے لیے الگ الگ کپتان مقرر کرنے کی روایت موجود نہیں۔ لیکن مہندر سنگھ دھونی کا پراسرار انداز میں ٹیسٹ کرکٹ کو چھوڑ دینے کے اعلان کے بعد 'ٹیم انڈیا' بھی ٹیسٹ اور ون ڈے کے لیے الگ کپتان کی حامل ہوگئی ہے۔

آئندہ سہ رخی سیریز دھونی کے ایک روزہ کیریئر میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے (تصویر: Getty Images)
آئندہ سہ رخی سیریز دھونی کے ایک روزہ کیریئر میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے (تصویر: Getty Images)

دھونی کے زخمی ہونے کے سبب بارڈر-گاوسکر ٹرافی کے پہلے ٹیسٹ میں ویراٹ کوہلی نے قائم مقام کپتان کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھائیں جس کے بعد سیریز کے چوتھے و آخری ٹیسٹ سے قبل دھونی کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں باضابطہ طور پر قیادت سونپی گئی۔ لیکن 16 جنوری سے ہونے والی سہ رخی سیریز میں قیادت ایک مرتبہ پھر ایم ایس دھونی کے پاس ہوگی۔

دورۂ آسٹریلیا کے آغاز کے وقت دھونی کی جو حیثیت تھی، وہ یقیناً اب نہیں ہے۔ وہ تمام طرز کی کرکٹ میں بھارت کے بے تاج بادشاہ تھے لیکن اب وہ ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی تک محدود رہ گئے ہیں یعنی 'ٹیم انڈیا' کی کشتی اب دو مختلف المزاج افراد چلائیں گے۔ ویراٹ کوہلی جہاں اپنی جارح مزاجی اور جذباتیت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، وہیں دھونی کم گو اور دھیمی طبیعت کے حامل ہیں۔ مشرق و مغرب کے اس اختلاف کے علاوہ کوہلی کی کپتانی کا یہ باضابطہ آغاز ہے جبکہ دھونی اپنے کیریئر کے اختتامی مرحلے میں ہیں اور بھارتی ٹیم واضح طور پر دو خیموں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ چند کھلاڑی، سلیکٹرز اور شائقین کی ایک کثیر تعداد دھونی کی ریٹائرمنٹ سے خوش نہیں وہیں سابق کپتان بشن سںگھ بیدی، سابق کوچ انشومن گائیکواڑ سمیت بورڈ کے اکثر افراد دھونی کی ریٹائرمنٹ سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ٹیسٹ میں دھونی کی کارکردگی قابل اطمینان نہیں رہی تھی اور ایک روزہ مقابلوں میں حالات بالکل مختلف ہوتے ہیں اور دھونی اس کے لیے موزوں ہیں۔ اس لیے یہ ان کے حق میں بہتر ہے کہ وہ اپنی پوری توجہ مختصر طرز کی کرکٹ پر مرکوز رکھیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ماہرین کا ایک حلقہ اس امر پر تشویش میں مبتلا ہے کہ ٹیسٹ اور ایک روزہ کے الگ الگ کپتان کیا بھارتی ٹیم میں اختلافات کا باعث تو نہیں بنیں گے؟ حالانکہ ٹیسٹ، ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی میں الگ الگ کپتان رکھنے کا تجربہ اس سے قبل کئی ٹیمیں کر چکی ہیں۔ 2011ء میں انگلستان نے اینڈریو اسٹراس، ایلسٹر کک اور اسٹورٹ براڈ کو ٹیسٹ، ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی سونپی جس کے بعد سے یہ بحث زوروں پر ہے کہ آیا قومی ٹیم کے ساتھ یہ تجربہ کرنا سود مند ہے یا نہیں۔ اس زمانے میں سارو گانگلی جو دھونی کی ٹیسٹ کپتانی کے پرزور ناقد رہے ہیں، نے بھارتی ٹیم میں الگ الگ کپتان مقرر کرنے کی پرزور وکالت کی تھی۔ 2014ء کے وسط میں سری لنکا میں کھیلی جانے والی سیریز میں ہاشم آملہ کو ٹیسٹ کپتانی ملنے کے بعد جنوبی افریقہ کے تینوں طرز کے لیے مختلف کپتان ہوچکے ہیں۔ ہاشم ٹیسٹ، ابراہم ڈی ولیئرز ایک روزہ اور فف دو پلیسی ٹی ٹوئنٹی میں قیادت کررہے ہیں۔

لیکن بھارت کی صورتحال مختلف ہے۔ ملبورن میں شیکھر دھاون اور کوہلی کے درمیان ہونے والی تلخ کلامی، ذرائع ابلاغ کے سامنے دھونی کی جانب سے اس واقعے کی پہلے تصدیق اور پھر تردید، پھر ان کا اچانک ٹیسٹ سے الگ ہوجانا اور ٹیم کے انتخاب کے معاملے پر انتظامیہ کے ساتھ اختلافات، یہ وہ محرکات ہیں جن کے پس منظر میں بھارت کی ٹیسٹ اور ایک روزہ قیادت دو حصوں میں تقسیم ہوئی ہے اور یہ آئندہ سہ رخی سیریز میں کپتان دھونی کے لیے مزید مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ لیکن یہی موقع ہے کہ دھونی ایک روزہ میں اپنی اہلیت ثابت کریں۔

ماہرین ایک طبقہ ویراٹ کوہلی کو ٹیسٹ کپتان بنائے جانے کی حمایت تو کررہا ہے لیکن ساتھ ساتھ ایک روزہ میں دھونی کی قیادت کا قائل بھی ہے۔ اس لیے اس سیریز میں دھونی کو اپنی قیادت کو ازسرنو منظم کرنا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ٹیسٹ سیریز کے اختلافات ایک روزہ مقابلوں پر اپنے اثرات نہ دکھائیں۔

انگلستان اور آسٹریلیا کے خلاف آئندہ سہ رخی سیریز دھونی کی ایک روزہ کپتانی کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے کیونکہ اس سیریز کے فوراً بعد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے میدانوں پر ہی بھارت نے عالمی کپ کھیلنا ہے، جہاں قیادت دھونی ہی کریں گے۔

دھونی کا ایک روزہ کیریئر اپنی پوری تابناکی کے ساتھ اختتام کو پہنچے، نیز ٹیسٹ اور ایک روزہ کی الگ الگ قیادت 'ٹیم انڈیا' کو منتشر نہ کرے، اس کے لیے ضروری ہے کہ آئندہ سہ رخی سیریز اور پھر عالمی کپ میں دھونی کی قیادت کو استحکام ملے۔