عالمی کپ کے 30 جادوئی لمحات: آخری سپاہی نے میدان مار لیا

0 1,050

پاکستان سمیت تمام ممالک کے لیے 1975ء کا عالمی کپ ایک نیا تجربہ تھا۔ اپنی طرز کے اس پہلے ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل چار سالوں میں محض 18 ایک روزہ مقابلے کھیلے گئے تھے اور جب 7 جون 1975ء کو لارڈز میں پہلے عالمی کپ کا افتتاحی مقابلہ کھیلا گیا تو اسی دن اندازہ ہوگیا تھا کہ دنیا نے ابھی محدود اوورز کی کرکٹ کا مزاج نہیں سمجھا۔ 335 رنز کے ہدف کے تعاقب میں بھارت نے 60 اوورز میں صرف 132 رنز بنائے تو ظاہر ہوگیا تھا کہ ایک روزہ کرکٹ کو اپنا مقام بنانے کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا لیکن صرف چار روز بعد پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے ایک ایک یادگار مقابلے نے افتتاحی میچ کی بدمزگی کو دور کردیا۔

کپتان ماجد خان نے اپنے تمام اہم گیندبازوں کو آزما لیا لیکن ویسٹ انڈیز کی آخری وکٹ حاصل نہ کرسکے، یہاں تک کہ آخری اوور میں پانچ رنز کے دفاع کے لیے گیند وسیم راجہ کو تھمانی پڑی اور توقعات کے مطابق وہ بھی ناکام ہی رہے (تصویر: PA Photos)
کپتان ماجد خان نے اپنے تمام اہم گیندبازوں کو آزما لیا لیکن ویسٹ انڈیز کی آخری وکٹ حاصل نہ کرسکے، یہاں تک کہ آخری اوور میں پانچ رنز کے دفاع کے لیے گیند وسیم راجہ کو تھمانی پڑی اور توقعات کے مطابق وہ بھی ناکام ہی رہے (تصویر: PA Photos)

ایجبسٹن، برمنگھم میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کا مقابلہ ٹورنامنٹ کا آٹھواں اور دونوں ٹیموں کا تاریخ میں پہلا ون ڈے تھا۔ پاکستان کے کپتان ماجد خان تھے جنہوں نے 60 رنز کی بہترین اننگز کے ذریعے پاکستان کی بلے بازی کو سہارا دیا، تو مشتاق محمد کے 55 اور وسیم راجہ کے 58 رنز نے پاکستان کو 266 رنز تک پہنچا دیا۔

267 رنز اس زمانے میں، 60 اوورز میں بھی ایک بڑا ہدف سمجھا جاتا تھا اور پاکستان کی بالادست پوزیشن کے بارے میں اگر کسی کو شک بھی تھا تو وہ سرفراز نواز کی باؤلنگ سے ختم ہوگیا۔ ویسٹ انڈیز صرف 39 رنز پر تین وکٹوں نے محروم ہو گیا تھا جن میں گورڈن گرینج، ایلون کالی چرن اور روئے فریڈرکس کی قیمتی وکٹیں شامل تھی جو تینوں سرفراز کے شکار بنے۔ اننگز کچھ سنبھلی لیکن تہرے ہندسے میں پہنچنے سے پہلے پاکستان نے روہن کنہائی اور اس سے بھی بڑھ کر ویوین رچرڈز کی بہت بڑی وکٹ حاصل کرلی۔ 99 رنز پر ویسٹ انڈیز اپنے آدھے کھلاڑیوں سے محروم ہوگیا تھا اور بچ جانے والے واحد قابل ذکر بلے باز کپتان کلائیو لائیڈ تھے۔ ان کی موجودگی میں ویسٹ انڈیز کو ڈھارس تھی کہ شاید مقابلہ بچ جائے لیکن جس وقت وہ جاوید میانداد کے ایک روزہ کیریئر کی پہلی وکٹ بنے اس وقت بھی ویسٹ انڈیز جیت سے 116 رنز دور تھا اور اس کی محض تین وکٹیں باقی بچی تھیں۔

مقابلہ اب پاکستان کی مکمل گرفت میں تھا اور اس کی شکست کی کوئی وجہ سامنے نظر نہ آتی تھی لیکن ویسٹ انڈیز ناممکن کو ممکن بنانے والی ٹیم تھی۔ ڈیرک مرے اور وینبرن ہولڈر نے 37 قیمتی رنز کا اضافہ کیا اور جب نویں وکٹ بھی گرگئی تو ویسٹ انڈیز کو آخری 16 اوورز میں 64 رنز کی ضرورت تھی۔ اب پاکستان کو ضرورت تھی صرف ایک اچھی گیند کی لیکن آخر تک کپتان ماجد خان منتظر ہی رہے کہ کوئی پاکستانی باؤلر وہ گیند پھینک دے۔ جلد بازی میں انہوں نے سرفراز نواز کے باقی اوورز بھی کروا دیے جو باوجود تمام کوشش کے ڈیرک مرے اور اینڈی رابرٹس کی آخری جوڑی کو میدان بدر نہ کرسکے۔ یہاں تک کہ معاملہ آخری اوور تک پہنچ گیا جہاں ویسٹ انڈیز کو جیتنے کے لیے صرف پانچ رنز کی ضرورت تھی اور پاکستان کے پاس کوئی مستند گیندباز نہیں بچا تھا۔

ماجد خان کو نہ چاہتے ہوئے بھی یہ اوور جزوقتی باؤلر وسیم راجہ سے کروانا پڑا، جن کی چوتھی گیند پر ویسٹ انڈیز نے ہدف کو پا کر پاکستان کو صرف ایک وکٹ سے شکست دے دی۔

مرے 76 گیندوں پر 61 اور رابرٹس 49 گیندوں پر24 قیمتی رنز کے ساتھ واپس آئے اور پاکستان اس شکست کی وجہ سے سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔ سری لنکا کے خلاف آخری گروپ مقابلے میں 192 رنز کی بڑی جیت بھی اسے "فائنل فور" تک نہ پہنچا سکی۔

ویسٹ انڈیز نے پاکستان کے خلاف میچ کے مشکل مرحلے کو بڑی ہمت سے عبور کیا اور اس کے بعد سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو چت کرتا ہوا فائنل میں پہنچا اور آسٹریلیا کو شکست دے کر پہلا عالمی کپ جیت لیا۔

پاکستان کے لیے یہ شکست اتنی مایوس کن تھی کہ پھر عرصے تک پاکستان ویسٹ انڈیز کو عالمی کپ میں شکست نہیں دے سکا، لیکن پاکستان نے کب یہ کارنامہ انجام دیا یہ ہم آپ کو عالمی کپ کے جادوئی لمحات میں ضرور بتائیں گے۔