عالمی کپ کے 30 جادوئی لمحات: لاہور اور بمبئی کا ’’سانحہ‘‘

0 1,073

تحریر: فہد کیہر (پاکستان-آسٹریلیا مقابلہ)/سلمان غنی (بھارت-انگلستان مقابلہ)

1987ء میں جب کرکٹ کے ’’میگا ایونٹ‘‘ کا انعقاد پہلی مرتبہ ایشیائی سرزمین پر کیا گیا تھا تو یہ فطرتاً بر صغیر کی دونوں بڑی ٹیموں یعنی بھارت اور پاکستان کے لیے ’’انا کا مسئلہ‘‘ تھا۔ پاکستان اس زمانے میں دنیا کی بہترین ٹیم شمار ہوتا تھا اور بھارت کو اپنے اعزاز کا دفاع کرنا تھا جو اس نے 1983ء میں کرشماتی طور پر حاصل کیا تھا۔

دونوں ٹیموں نے گروپ مرحلے میں صرف ایک، ایک شکست کھائی۔ ایک طرف آسٹریلیا کے ہاتھوں ایک رن کی سنسنی خیز ہار نے بھارت کے حوصلوں کا امتحان لیا تو دوسری جانب پاکستان ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک مقابلہ تو ایک وکٹ کے فرق سے جیت گیا لیکن دوسرے میں اسے 28 رنز سے شکست ہوئی۔ اس کے باوجود دونوں ٹیمیں جامع کارکردگی دکھا کر اپنے اپنے گروپوں میں سرفہرست رہیں اور باآسانی سیمی فائنل تک پہنچیں۔ یہاں پہلے پاکستان کو اپنے مضبوط قلعے لاہور میں آسٹریلیا کا سامنا کرنا تھا اور اگلے ہی دن بھارت کا مقابلہ بمبئی میں انگلستان کے خلاف طے تھا۔

4 نومبر 1987ء کو ہزاروں تماشائیوں کی موجودگی میں پہلا سیمی فائنل قذافی اسٹیڈیم، لاہور میں کھیلا گیا جس میں آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ کپتان ایلن بارڈر کا یہ فیصلہ اس وقت بالکل درست ثابت ہوا جب آسٹریلیا نے پہلی ہی وکٹ پر 73 رنز بنائے اور اس کے بعد پاکستان کی غیر موثر گیندبازی کے سامنے 267 رنز کا بڑا مجموعہ اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوا۔ ڈیوڈ بون کی 65، مائيک ویلیٹا کی 48 اور آخری لمحات میں اسٹیو واہ کی 28 گیندوں پر 32 رنز کی اننگز سب سے نمایاں رہیں لیکن جس اوور کو پاکستانی شائقین کبھی نہیں بھولیں گے وہ سلیم جعفر کی جانب سے پھینکا گیا آخری اوور تھا، جس میں انہوں نے 18 رنز کھائے۔ سلیم جعفر نے صرف 6 اوورز میں 57 رنز دیے جبکہ وسیم اکرم کو 10 اوورز میں 54 رنز پڑے۔ سوائے عمران خان کے کوئی گیندباز نمایاں کارکردگی نہ دکھا سکا۔ پاکستانی باؤلرز نے اننگز میں کل 34 فاضل رنز دیے جن میں 13 وائیڈز بھی شامل تھیں۔

گیندبازی کے اس مایوس کن مظاہرے کے بعد پاکستان کے لیے جو کسر باقی رہ گئی تھی وہ صرف 38 رنز پر تین کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے سے پوری ہوگئی۔ 268 رنز کے تعاقب میں پاکستان کو رمیز راجہ کے رن آؤٹ کی صورت میں پہلا نقصان اٹھانا پڑا اور کچھ ہی دیر بعد منصور اختر اور سلیم ملک کی وکٹیں بھی گرگئیں۔سلیم ملک کی وکٹ بہت قیمتی تھی کیونکہ وہ بہترین کھیل پیش کررہے تھے۔ 31 گیندوں پر 25 رنز بنانے کے بعد جب وہ پویلین لوٹے تو اننگز کو آگے بڑھانے کی مشکل ذمہ داری عمران خان اور جاوید میانداد کے پاس تھی۔ دونوں نے چوتھی وکٹ پر 112 رنز جوڑ کر مقابلے کو ایک مرتبہ پھر برابری کی سطح پر لا کھڑا کیا لیکن اس کے بعد کریگ میک ڈرمٹ آئے اور مقابلے پر چھا گئے۔ دوسرے کنارے سے جب ایلن بارڈر نے عمران خان کو آؤٹ کیا اور بروس ریڈ نے جاوید میانداد اور وسیم اکرم کی وکٹیں حاصل کیں تو پاکستان کے امکانات کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ عمران خان نے 58 اور جاوید میانداد نے 70 رنز بنائے اور پاکستان 212 رنز پر ہی 7 کھلاڑیوں سے محروم تھا۔ سلیم یوسف نے آخری کوشش اور لاحاصل کوشش کی اور میک ڈرمٹ نے باقی تینوں بلے بازوں کو ٹھکانے لگاکر پاکستان کا عالمی کپ جیتنے کا خواب چکناچور کردیا۔

زندہ دلان لاہور، بلکہ پورا پاکستان، سکتے کے عالم میں تھا۔ اسے اتنے ہی رنز سے شکست ہوئی، جتنے سلیم جعفر نے آخری اوور میں کھائے تھے، یعنی 18 رنز سے اور ساتھ ہی کروڑوں دل ٹوٹ گئے۔ آسٹریلیا، جس کے بارے میں شاید ہی کو توقع تھی، فائنل تک پہنچ گیا لیکن ابھی یہ طے ہونا باقی تھا کہ 8 نومبر کو ایڈن گارڈنز، کلکتہ میں اس کے مقابل کون آئے گا؟

اس کا فیصلہ 5 نومبر کو بمبئی میں بھارت اور انگلستان کے سیمی فائنل سے ہونا تھا۔ بھارت گروپ مرحلے میں سرفہرست رہنے کے بعد سیمی فائنل تک پہنچا جہاں ایک مرتبہ پھر اس کے مقابل انگلستان تھا۔ وہی بدنصیب انگلستان جو پہلے عالمی کپ سے متواتر سیمی فائنل کھیل رہا تھا لیکن قسمت اس کے ساتھ نہیں تھی۔ 1975ء اور 1983ء میں انگلستان کی کمند سیمی فائنل میں ٹوٹی تو 1979ء میں اسے فائنل سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ اس طرح یہ انگلستان کا مسلسل چوتھا سیمی فائنل تھا اور 1983ء کی طرح ایک مرتبہ پھر اس کے سامنے بھارت تھا یعنی انگریز کھلاڑیوں کو پورا موقع حاصل تھا کہ وہ چار سال قبل کی شکست کا انتقام لیں۔

گراہم گوچ کی سنچری نے انگلستان کی جیت کی بنیاد رکھی (تصویر: Getty Images)
گراہم گوچ کی سنچری نے انگلستان کی جیت کی بنیاد رکھی (تصویر: Getty Images)

بھارت کے لیے راستہ ہموار تھا۔ شائقین کی زبردست حمایت، اسپن گیندبازوں کے لیے مددگار وکٹ، دفاعی چیمپئن ہونے کا زعم اور سب سے بڑھ کر حریف کی فیصلہ کن مقابلوں میں ہارنے کی روایت، یہ ایسے محرکات تھے جو بھارت کو مقابلے سے پہلے ہی فائنل تک پہنچاتے نظر آ رہے تھے۔ مقابلے کے لیے بھارت کے ترکش کا سب سے خطرناک تیر اسپن دستہ تھا جس میں منندر سنگھ کا کردار کلیدی تھا۔ اپنی اسی قوت کو مدنظر رکھتے ہوئے کپتان کپل دیو نے ٹاس جیت کر پہلے مہمان ٹیم کو بلے بازی کی پیشکش کی۔ شاید کپل اس خوش فہمی میں تھے کہ کھیل کے ابتدائی لمحات میں گیند سوئنگ لے گی، جس کے بعد اسپن دستے کو میدان میں اتار کر حریف کو پریشان کریں گے لیکن نہ گیند نے سوئنگ لی اور نہ ہی بھارت کا اسپن محکمہ کارگر ثابت ہوا۔ 79 رنز پر انگلستان کی دو وکٹیں گرانے کے بعد بھارتی گیندبازوں کا ہر حربہ ناکام ہوتا نظر آیا۔ افتتاحی بلے باز گراہم گوچ اور کپتان مائیکل گیٹنگ کریز پر کھونٹا گاڑ کر کھڑے ہوگئے۔ ان دونزں نے بھارت کی اسی قوت پر ضربیں لگائیں، جس پر کپل دیو کو بڑا مان تھا۔ بھارت کی اسپن حکمت عملی کو ان دونوں بلے بازوں نے پوری منصوبہ بندی اور حاضر دماغی سے ناکام بنایا اور سوئپ اور پل شاٹس کا بہترین استعمال کرتے ہوئے 19 ویں اوور ہی میں انگلستان کا اسکور 117 رنز تک پہنچا دیا ۔

بھارت کے لیے گوچ اور گیٹنگ کی تیسری وکٹ کی شراکت داری درد سر بنتی جا رہی تھی۔ 82 کے انفرادی اسکور پر گوچ کو رن آؤٹ کرنے کا ایک مشکل موقع بھی بھارت کے لیے حوصلہ افزاء ثابت نہ ہو سکا۔ اب میزبان کھلاڑیوں، اور میدان میں موجود ہزاروں تماشائیوں، کے چہروں پر مایوسی صاف نظر آنے لگی تھی۔ گوچ اور گیٹنگ کے منصوبے توقع سے بڑھ کر خطرناک رنگ اختیار کرچکےتو منندر سنگھ نے گیٹنگ کو بولڈ کرکے بھارت کو سکھ کا سانس فراہم کیا لیکن 56 رنز کی اننگز تمام ہونے کے باوجود انگلستان کی پوزیشن مستحکم ہوچکی تھی۔ گوچ 11 چوکوں کی مدد سے 115 رنز بنا کر اس وقت آؤٹ ہوئے جب انگلستان کو تیز رفتاری کی ضرورت تھی۔ یہ کام ایلن لیمب نے انجام دیا جنہوں نے 29 گیندوں پر 32 رںز بنائے اور یوں انگلستان مقررہ 50 اوورز میں 6 وکٹوں پر 254 رنز کا مجموعہ اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوگیا جو اس وقت ایک مشکل ہدف سمجھا جاتا تھا۔

صرف 7 کے مجموعے پر سنیل گاوسکر کی وکٹ گری تو وانکھیڑے اسٹیڈیم پر سکتہ طاری ہوگیا۔ پھر 58 پر دوسری اور 71 رنز پر تیسری وکٹ بھی انگلستان کے ہاتھ لگ گئی۔ تاہم جزوقتی وکٹ کیپر چندرکانت پنڈت اور جواں سال بلے باز محمد اظہر الدین نے بھارت کی ڈگمگاتی کشتی کو سنبھالا اور ٹیم کے مجموعے کو 121 رنز تک پہنچا دیا۔ چندرکانت پنڈٹ کی روانگی کے بعد کپل دیو نے اس غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش کی، جو انہوں نے ٹاس جیت کر پہلے گیندبازی سنبھال کر کی تھی۔ کپل نے 22 گیندوں پر 30 رنز بنائے اور آؤٹ ہوگئے۔ 168 رنز پر پانچ وکٹیں گرنے کے باوجود بھارت کی جیت کی امید اب بھی برقرار تھی کیونکہ محمد اظہر الدین پورے اعتماد کے ساتھ بلے بازی کررہے تھے، نیز آنے والے بلے باز روی شاستری اور کرن مورے سے بھی توقع تھی کہ وہ رن اور گیند کے فرق کو کم کرتے ہوئے ٹیم کو ہدف تک پہنچا سکتے ہیں۔

لیکن ایڈی ہیمنگز نے بھارت کی پیشرفت پر کاری ضرب لگائی۔ پہلے انہوں نے کپل کو آؤٹ کیا اور پھر کچھ دیر بعد محمد اظہر الدین کو ایل بی ڈبلیو کرکے واپسی پر مجبور کردیا۔ اظہر 74 گیندوں پر 64 رنز بنانے کے بعد بوجھل دل کے ساتھ میدان سے واپس آئے تو بھارت کو 10 اوورز میں پانچ رنز فی اوور کا اوسط درکار تھا۔ جب تک اظہر موجود تھے تو یہ امید بندھی ہوئی تھی لیکن ان کے آؤٹ ہوتے ہی بھارت کے بلے بازوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ روی شاستری کے 32 گیندوں پر 21 رنز کے علاوہ کوئی قابل ذکر مزاحمت نہ ہوسکی اور 46 ویں اوور میں ہی بھارت کے تمام بلے باز 219 رنز پر آؤٹ ہوگئے اور انگلستان کو فائنل کا پروانہ مل گیا۔

یوں دو روایتی حریفوں، آسٹریلیا اور انگلستان، نے پاکستان اور بھارت کو باہر کرکے پاک-بھارت فائنل کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ برصغیر کو غم کی چادر نے اوڑھ لیا اور ہندوپاک کے لیے فائنل میں کوئی کشش باقی نہیں رہی جو آسٹریلیا اور انگلستان کے طے پایا۔ اس فائنل کا احوال آئندہ قسط میں ہوگا۔ تب تک آپ 1987ء کے عالمی کپ کے دونوں یادگار سیمی فائنل مقابلوں کی جھلکیاں دیکھیں۔

عالمی کپ 1987ء: پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا سیمی فائنل (جھلکیاں)

عالمی کپ 1987ء: بھارت بمقابلہ انگلستان سیمی فائنل (جھلکیاں)