[ریکارڈز] رونکی اور ایلیٹ کی غیر معمولی رفاقت
صرف 93 رنز پر پانچ کھلاڑی آؤٹ ہوجانے کے بعد جب ایک آل راؤنڈر اور وکٹ کیپر کریز پر موجود ہو تو زیادہ سے زیادہ کتنے رنز کی توقع کی جا سکتی ہے؟ 200؟ 250؟ یا بڑا ہی کوئی مار لیا تو 300؟ لیکن نیوزی لینڈ کے لیوک رونکی اور گرانٹ ایلیٹ نے 267 رنز کی ناقابل شکست اور ریکارڈ رفاقت کے ذریعے اپنے نام تاریخ میں محفوظ کروا لیے ہیں۔
سری لنکا کے خلاف جاری سیریز کے پانچویں ایک روزہ مقابلے میں دونوں بلے بازوں کی شاندار کارکردگی نے نیوزی لینڈ کو 360 رنز کے مجموعے تک پہنچایا ، جس کے تعاقب میں سری لنکا 252 رنز ہی بنا سکا۔ یوں 108 رنز کی شاندار جیت کے ساتھ نیوزی لینڈ سات مقابلوں کی سیریز میں 3-1 کی برتری حاصل کرچکا ہے۔
ڈنیڈن میں کھیلے گئے مقابلے کی سب سے خاص بات وکٹ کیپر لیوک رونکی کی طوفانی اننگز تھی۔ ابھی دنیائے کرکٹ جنوبی افریقہ کے ابراہم ڈی ولیئرز کی 149 رنز کی ریکارڈ شکن اننگز کے سحر ہی سے نہیں نکل پائی تھی کہ رونکی کی ناقابل یقین باری نے اسے جکڑ لیا ہے۔ 99 گیندوں پر 9 چھکوں اور 14 چوکوں سے مزین 170 رنز کی ناٹ آؤٹ اننگز شاید مزید آگے جاتی لیکن مقررہ 50 اوورز اختتام کو پہنچ گئے۔ لیکن 30 اوورز تک وکٹ پر قیام کے دوران ہی دونوں بلے بازوں نے سری لنکا کی باؤلنگ لائن کی دھجیاں بکھیر دیں۔ مہمان گیندباز جو برینڈن میک کولم، کین ولیم سن، روس ٹیلر اور کوری اینڈرسن سمیت تمام اہم بلے بازوں کو ٹھکانے لگا چکے تھے، مطمئن تھے کہ ان دونوں کی غیر متوقع کارکردگی میں جکڑے گئے۔
ایلیٹ اور رونکی نے ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ میں چھٹی وکٹ کی سب سے بڑی شراکت داری کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔ انہوں نے مہیلا جے وردھنے اور مہندر سنگھ دھونی کا 218 رنز کا ریکارڈ اپنے نام کیا۔ حیران مت ہوں، یہ ریکارڈ سری لنکا اور بھارت کے ان مایہ ناز کھلاڑیوں نے ایشیا الیون کی جانب سے کھیلتے ہوئے افریقہ الیون کے خلاف جون 2007ء میں بنایا تھا۔
کسی بھی وکٹ کے لیے بھی یہ نیوزی لینڈ کی تاریخ کی دوسری سب سے بڑی رفاقت ہے۔ اس وقت یہ ریکارڈ برینڈن میک کولم اور ہمیش مارشل کے پاس ہے جنہوں نے جولائی 2008ء میں آئرلینڈ کے خلاف پہلی ہی وکٹ پر 274 رنز بنا ڈالے تھے۔
چھٹی وکٹ پر سب سے بڑی ایک روزہ شراکت داریاں
بلے باز1 | بلے باز2 | ملک | رنز | بمقابلہ | بمقام | بتاریخ |
---|---|---|---|---|---|---|
گرانٹ ایلیٹ | لیوک رونکی | نیوزی لینڈ | 267* | سری لنکا | ڈنیڈن | 23 جنوری 2015ء |
مہیلا جے وردھنے | مہندر سنگھ دھونی | ایشیا الیون | 218 | افریقہ الیون | چنئی | 10 جون 2007ء |
ٹاٹنڈا ٹائبو | اسٹورٹ ماتسکنیری | زمبابوے | 188 | جنوبی افریقہ | بینونی | 8 نومبر 2009ء |
مائیکل ہسی | بریڈ ہیڈن | آسٹریلیا | 165 | ویسٹ انڈیز | کوالالمپور | 18 ستمبر 2006ء |
کریگ میک ملن | برینڈن میک بولم | نیوزی لینڈ | 165 | آسٹریلیا | ہملٹن | 20 فروری 2007ء |
رونکی کی 170 رنز کی اننگز ساتویں یا اس سے نچلے نمبروں پر آنے والے دنیا کے کسی بھی بلے باز کی طویل ترین اننگز بھی ہے۔ انہوں نے مندرجہ بالا مقابلے ہی میں کھیلی گئی دھونی کی 139 رنز کی اننگز کا ریکارڈ اپنے نام کیا۔ البتہ یہ وکٹ کیپرز کی جانب سے کھیلی گئی تیسری طویل ترین انںگز رہی۔ یہ ریکارڈ اس وقت بھارت کے مہندر سنگھ دھونی کے پاس ہے جنہوں نے اکتوبر 2005ء میں سری لنکا کے خلاف 183 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی تھی۔ آسٹریلیا کے ایڈم گلکرسٹ نے جنوری 2004ء میں زمبابوے کے خلاف 172 رنز بنائے تھے۔
وکٹ کیپرز کی سب سے بڑی ایک روزہ اننگز
بلے باز | ملک | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | بمقابلہ | بمقام | بتاریخ |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مہندر سنگھ دھونی | بھارت | 183* | 145 | 15 | 10 | سری لنکا | جے پور | 31 اکتوبر 2005ء |
ایڈم گلکرسٹ | آسٹریلیا | 172 | 126 | 13 | 3 | زمبابوے | ہوبارٹ | 16 جنوری 2004ء |
لیوک رونکی | نیوزی لینڈ | 170* | 99 | 14 | 9 | سری لنکا | ڈنیڈن | 23 جنوری 2015ء |
کمار سنگاکارا | سری لنکا | 169 | 137 | 18 | 6 | جنوبی افریقہ | کولمبو | 20 جولائی 2013ء |
دنیش رامدین | ویسٹ انڈیز | 169 | 121 | 8 | 11 | بنگلہ دیش | باسیتیرے | 25 اگست 2014ء |
لیوک رونکی نے اپنے بین الاقوامی کیریئر کا آغاز آسٹریلیا کی جانب سے کیا تھا جب انہوں نے 4 ایک روزہ اور 2 ٹی ٹوئنٹی مقابلے کھیلے تھے لیکن بعد ازاں مزید امکانات معدوم ہوجانے کے بعد انہوں نے آبائی وطن نیوزی لینڈ کا رخ کیا اور 2013ء سے بلیک کیپس کی نمائندگی کررہے ہیں۔
عالمی کپ سے صرف چند ہفتے پہلے جہاں برینڈن میک کولم اور کین ولیم سن بہترین فارم میں نظر آ رہے ہیں، نچلے آرڈر میں رونکی کی یہ دھواں دار اننگز نیوزی لینڈ کی بیٹنگ لائن کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے جو تمام حریف ٹیموں کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوگی۔ یہ نیوزی لینڈ کی خوش قسمتی ہے کہ اس کی ٹیم کے تمام پرزے بالکل درست وقت پر بھرپور انداز میں چل رہے ہیں اور اگر ایسے ہی عالمی کپ میں بھی جاری رہے تو شاید ہی کوئی نیوزی لینڈ کو روک پائے۔