عالمی کپ کے 30 جادوئی لمحات: ملتان کا سلطان
عالمی کپ 1992ء کے ابتدائی مقابلوں میں پے در پے شکستوں کے بعد جب پاکستان باہر ہونے کے بالکل قریب تھا، عمران خان کے "دیوار سے لگے شیروں" نے آخری کوشش کی اور آسٹریلیا، سری لنکا اور نیوزی لینڈ جیسے سخت حریفوں کو شکست دے کر سیمی فائنل تک پہنچ گئے۔ جو عالمی کپ کی تاریخ میں پاکستان کا مسلسل چوتھا سیمی فائنل تھا، اس سے پہلے وہ 1979ء، 1983ء اور سب سے مایوس کن انداز میں 1987ء کے سیمی فائنل میں شکست کھا چکا تھا، لاہور میں اپنے ہی میدان پر، اپنے ہی تماشائیوں کے سامنے۔ اس ہار کا غم اتنا تھا کہ کپتان عمران خان نے کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا۔ البتہ صدر مملکت ضیاء الحق کے مطالبے پر انہوں نے یہ فیصلہ واپس لیا اور پانچ سال بعد ایک مرتبہ پھر عالمی کپ کے سیمی فائنل میں کھڑے تھے۔ 40 سالہ عمران خان کے پاس یہ آخری موقع تھا کہ ٹیم کو فائنل تک پہنچائیں اور اپنے خواب کی تعبیر پائیں، لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔
سیمی فائنل میں پاکستان کا مقابلہ نیوزی لینڈ سے تھا، وہ ٹیم جو پہلے مرحلے میں اپنے ابتدائی ساتوں مقابلے میں فتح یاب ہوئی تھی۔ نہ فیورٹ آسٹریلیا اسے شکست دے سکا، نہ جنوبی افریقہ، نہ انگلستان اور نہ ہی بھارت۔ اسے صرف ایک شکست ہوئی، وہ پہلے مرحلے کے آخری مقابلے میں پاکستان کے ہاتھوں۔ اب یہ دونوں حریف آکلینڈ کے ایڈن پارک میں ایک زیادہ بڑے مقابلے کے لیے آمنے سامنے تھے۔ مسلسل بہترین کارکردگی دکھانے کے بعد بلاشبہ نیوزی لینڈ کا پلڑا مقابلے میں بھاری سمجھا جا رہا تھا اور جب پہلے 50 اوورز مکمل ہوئے تو یہ بات ثابت بھی ہو رہی تھی۔ وسیم اکرم، عمران خان، عاقب جاوید اور مشتاق احمد کے مقابلے میں نیوزی لینڈ نے 262 رنز کا مجموعہ اکٹھا کر ڈالا تھا۔
اس زمانے میں جب "پنچ ہٹنگ" عام نہیں ہوئی تھی اور ایک روزہ طرز کی کرکٹ پر ابھی ٹیسٹ کی چھاپ بہت گہری تھی، 263 رنز کا ہدف کافی سے زیادہ شمار ہوتا تھا۔ مارٹن کرو کی شاہکار اننگز نیوزی لینڈ کو میچ میں ایک ایسے مقام تک لے آئی تھی، جہاں سے وہ پہلی بار فائنل تک پہنچ سکتا تھا۔ 23 سال قبل مارٹن کرو کی 83 گیندوں پر 91 رنز کی اننگز آج بھی یاد ہے، جس نے نیوزی لینڈ کے حامیوں میں سکون اور پاکستانیوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی تھی۔ بڑا مجموعہ اکٹھا کرنے کے بعد مارٹن کرو اس حد تک مطمئن تھے کہ طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے فیلڈنگ کے لیے بھی میدان میں نہ اترے اور ہدف کے تعاقب میں موجود پاکستان نے ابتدائی 35 اوورز کے کھیل سے انہیں مزید تسکین دی۔
پاکستان نے اپنے تین چوتھائی اوورز صرف 140 رنز بنانے کے لیے ضائع کیے اور جب آخری 15 اوورز کا مرحلہ شروع ہوا تو درکار رن اوسط 8 رنز سے بھی اوپر تھا یعنی 1992ء میں تو ناممکنات میں سے ایک۔ عین اسی مرحلے پر ملتان سے تعلق رکھنے والے نوجوان انضمام الحق نے میدان میں قدم رکھا اور اس کے بعد اگر کسی کو عمران خان کے "دیوار سے لگے شیروں" کے بارے میں کوئی شبہ تھا، تو وہ دور ہوگیا۔ انضمام واقعی زخمی شیر کی طرح نیوزی لینڈ کے گیندبازوں پر جھپٹے۔ ان کی جارحانہ بلے بازی اور طاقتور شاٹس نے نیوزی لینڈ کے جبڑوں سے فتح چھین لی۔ تھوڑی دیر پہلے جس میدان میں خوشی سے جھومتے مقامی تماشائیوں کے ہنگامے کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، وہاں اب آہستہ آہستہ خاموشی چھاتی جا رہی تھی۔
انضمام الحق نے صرف 37 گیندوں پر 63 رنز بنا کر تاریخ کا دھارا پلٹ دیا۔ جاوید میانداد کے ساتھ صرف 10 اوورز میں 87 رنز کی شراکت داری پاکستان کو جیت کے بہت قریب لے آئی اور معین خان کے 11 گیندوں پر 20 رنز نے باقی کا کام مکمل کردیا اور پاکستان تاریخ میں پہلی بار عالمی کپ کا سیمی فائنل جیت گیا۔ جاوید میانداد 57 رنز کے ساتھ میدان سے ناقابل شکست اور خوشی سے سرشار واپس آئے۔پانچ سال قبل لاہور میں سیمی فائنل ہارنے کے بعد جو دکھ پہنچا تھا، جاوید کے لیے آج اس کے ازالے کا دن تھا۔
لیکن اس مقابلے سے جس بلے باز کی عالمی اکھاڑے میں آمد کا حقیقی کا اعلان ہواتھا، وہ انضمام الحق تھے۔ یہ اننگز 120 ٹیسٹ اور 378 ایک روزہ مقابلوں کے طویل کیریئر کا نقطہ آغاز تھی، جس کی بدولت انضمام "ملتان کے سلطان" بنے۔