عالمی کپ اور بھارت، ایک امیدِ لاحاصل
نصر بلخی (پٹنہ، بھارت)
آسٹریلیا کی سرزمین پر مسلسل شکستوں نے بھارت کی عالمی کپ کی دعوے داری پر کاری ضرب تو لگائی ہی ہے، ساتھ ہی بیرون ملک متواتر ناقص کارکردگی بھی 'ٹیم انڈیا' کی اہلیت پر سوالیہ نشان کھڑا کررہی ہے۔ میگا ایونٹ کے آغاز میں گنتی کے چند روز رہ گئے ہیں اور بھارتی خیمہ شکست کی مایوسی میں گھرا ہوا ہے۔
ان حالات میں بھارت سے کسی مثبت نتیجے کی توقع بیکار ہے۔ یوں تو ماضی اس امر کا گواہ ہے کہ بھارتی ٹیم اندرون ملک تو زبردست فارم میں دکھائی دیتی ہے لیکن جوں ہی ان کا قدم گھر سے باہر نکلتا ہے، کھلاڑی حواس باختہ ہوجاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ گھریلو میدانوں پر اپنی کھلاڑیوں کی غیر معمولی کارکردگی دیکھ کر شائقین ان سے بڑی امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں اور بیرون ملک مایوس کن مظاہرے دیکھ کر محرومی و مایوسی کے سوا ہاتھ کچھ نہیں لگتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو وہی ہے جس کی جانب ہمیشہ سے ماہرین اشارہ کرتے آئے ہیں، یعنی ہموار گھریلو پچیں۔
بھارت کے ترکش کا بہترین تیر اس کے اسپن گیندبازوں کا دستہ ہے۔ اس کے لیے وہ ایسی پچیں تیار کرتا ہے جو اس کے اسپن گیندبازوں کے ساتھ ساتھ بلے بازوں کے لیے بھی سازگار ہوں تاکہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور انگلستان جیسی ٹیمیں، جنہیں اسپن گیندباز کھیلنے میں قدرے مشکل پیش آتی ہے، جم کر بلے بازی نہ کرسکیں۔ لیکن اس منصوبہ بندی کا سب سے بڑا نقصان خود بھارت کو ہو رہا ہے۔ ان پچوں کی وجہ سے بھارت میں تیز گیندبازی کو تو ویسا فروغ نہیں مل پا رہا جیسا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی وکٹوں پر کھیلنے والوں کو حاصل ہوتا ہے۔
بھارت کو اپنی مضبوط بلے بازی پر فخر ہے اور یقیناً دنیائے کرکٹ اس کو تسلیم بھی کرتی ہے لیکن باؤنس اور اچھال لیتی پچوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھارتی بلے باز بھی خود ایسی وکٹوں پر کھیلنے کے عادی نہیں ہو پاتے اور اکثر مواقع پر بیرون ملک بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک کھیلے جانے والے بیشتر مقابلے 'ٹیم انڈیا' جیت کر بالکل قریب پہنچ کر موقع گنوا دیتی ہے۔
بھارت کی موجودہ کارکردگی کو دیکھا جائے تو عالمی کپ کی تیاریوں کی قلعی کھل چکی ہے، اس لیے بہتر ہے کہ ٹیم انڈیا سے زیادہ امیدیں وابستہ نہ کی جائیں۔ بھارت جب تک نامانوس پچوں پر کھیلنے کی عادت نہیں ڈالے گا، اسے بیرون ملک رسوائیوں سے کوئی نہیں بچا سکتا۔