دنیائے کرکٹ کے سب سے بڑے شائقین

2 1,044

کرکٹ کے عالمی میلے کے آغاز میں اب صرف ایک ہفتہ ہی رہ گیا ہے۔ 14 فروری سے کھیل کےتمام دیوانے اپنا دل تھام کر بیٹھے ہوں گے لیکن کچھ خاص لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی اس دیوانگی کے لیے دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے چاچا کرکٹ سے لے کر انگلستان کی 'بارمی آرمی' تک، یہ تمام شائقین ہر اس جگہ پر پہنچتے ہیں جہاں ان کی قومی کرکٹ ٹیم کھیلتی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ورلڈ کپ سے قبل ہم ایسے ہی چند دیوانوں کا مختصر سا تذکرہ کریں گے تاکہ عالمی اعزازکی دوڑ شروع ہونے سے پہلے ان کو بھی یاد کیا جائے:

پاکستانی شائقین کی ایک پوری نسل اب چاچا کرکٹ کے نقش قدم پر چل رہی ہے
پاکستانی شائقین کی ایک پوری نسل اب چاچا کرکٹ کے نقش قدم پر چل رہی ہے

چاچا کرکٹ - پاکستان

چودھری عبدالجلیل چاچا کرکٹ کے نام ہی سے جانے جاتے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے رہنے والے چاچا کو پاکستان کے تقریباً ہر میچ کے دوران اسٹیڈیم میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ ٹیم کے ہر دورے کے ساتھ اُن کے سفر کا بھی خرچ اٹھاتا ہے لیکن اس سفر کا آغاز چاچا نے اپنے خرچے پر کیا۔ شارجہ میں ہونے والے کرکٹ مقابلوں سے انہیں شہرت ملی اور پھر وہ معروف شخصیات میں شمار ہونے لگے۔ وہ اسٹیڈیم میں سبز لباس اور سفید ٹوپی پہنتے ہیں، جس پر پاکستان کرکٹ کا نشان ہوتا ہے۔ لمبی سفید داڑھی میں انہیں اسٹیڈیم میں دور ہی سے پہچانا جا سکتا ہے۔ ایک بڑا سا پاکستانی پرچم لیے وہ پاکستانی ٹیم کے شائقین کی نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

سدھیر کمار چودھری - بھارت

مظفر پور، بہار کے رہنے والے سدھیر کا 2003ء سے ایک ہی کام ہے: بھارتی کرکٹ ٹیم کی حمایت کرنا۔ اب تک 175 سے زیادہ میچ انہوں نے اسٹیڈیم میں دیکھے ہیں، لیکن اس کے لیے زیادہ تر سفر سائیکل سے کیا ہے۔ یہاں تک کہ 2006ء میں لاہور اور 2007ء میں بنگلہ دیش تک سائیکل پر ہی گئے۔ اگر ٹرین میں بیٹھے تو کئی بار پیسے بچانے کے لیے بے ٹکٹ ہی سفر کیا۔ سدھیر پر یہ جنون ایسا چڑھا کہ انہوں نے اپنے جسم کو ترنگے میں رنگنا شروع کر دیا۔ وہ ایک رات پہلے ہی جسم پر رنگ لگا لیتے ہیں اور پھر سوتے نہیں ہیں، تاکہ رنگ خراب نہ ہو۔ 2011 میں بھارت کے عالمی کپ جیتنے کے بعد سچن تنڈولکر نے خود انہیں ڈریسنگ روم میں چل رہے جشن میں شامل ہونے کے لیے اسٹیڈیم سے بلوایا تھا۔ سدھیر اور عالمی کپ کے ساتھ انہوں نے تصویر بھی کھنچوائی۔

بارمی آرمی - انگلستان

کرکٹ شائقین کا یہ گروہ خود کو انگلینڈ ٹیم کا غیر اعلانیہ بارہواں کھلاڑی مانتا ہے۔ دنیا میں انگلستانی ٹیم جہاں بھی جاتی ہے، اُس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بارمی آرمی بھی وہاں ہوتی ہے۔ اسٹیڈیم کے علاوہ یہ شائقین کا کلب میچ سے پہلے اور بعد میں شاندار پارٹیاں بھی کرتا ہے۔ یہ کلب انگلینڈ ٹیم کے دوروں کے مطابق بیرونِ ملک آنے جانے اور رہنے کا بھی انتظام کرتا ہے۔

لُوک گِلیَن - آسٹریلیا

لوک کو آسٹریلیائی کرکٹ کا سب سے بڑا پرستار مانا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی ٹیم کی حمایت کرتے ہوئے 1995ء سے اب تک 151 میچ اسٹیڈیم میں دیکھ ڈالے ہیں۔ انہیں آسٹریلوی شائقین کے درمیان پھولوں والی شرٹ پہنے الگ ہی پہچانا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی اس دیوانگی کو کمائی کا ذریعہ بھی بنایا ہے۔ وہ 'ویونگ فلیگ' نامی کمپنی چلاتے ہیں جو آسٹریلیائی تماشائیوں کو دیس بدیس میں ہونے والے میچ دیکھنے لیے سفری منتظم کے طور پر خدمات انجام دیتی ہے۔

گریوی - ویسٹ انڈیز

1988ء سے 2000ء تک ویسٹ انڈیز میں اینٹیگا میدان میں کرکٹ 'گریوی' کے بنا ادھوری کہلاتی تھی۔ میدان میں کوئی بھی ٹیم ہو، مجمع میں گریوی ہی توجہ کا مرکز رہتے تھے۔ اُن کے عجیب و غریب پوشاک، رنگ برنگی شال، ٹخنوں تک لمبے جوتے اور ان سب کے علاوہ اُن کے کرتب سب کو اپنی جانب متوجہ کرتے رہے۔ وہ میچ کے دوران کسی جمناسٹ کی طرح چھلانگیں لگاتے تھے۔ ان کی موجودگی سے اسٹیڈیم میں ماحول کسی میلے کی طرح ہو جاتا۔ 1990ء کے انگلستان کے دورے کے وقت گریوی کے یہ کرتب پوری دنیا نے دیکھے۔ انہیں ویوین رچرڈز اور کرٹلی ایمبروز کے برابر ہی شہرت ملی۔ وہ اس سیریز کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ مشروبات کے وقفے کے دوران ان کے کرتبوں نے انگلینڈ کے بلے بازوں کا اس قدر دھیان کھینچا کہ وہ مشروبات ہی نہیں پی سکے، اور تھکے ہوئے انگریز بلے بازوں کا واش اور ایمبروز نے آسانی سے شکار کر لیا۔