عالمی کپ: سری لنکا مسلسل تیسری بار فائنل میں پہنچنے کے لیے پرامید
عالمی کپ میں نوآموز ٹیم کی حیثیت سے آغاز کرنے والے سری لنکا نے 1996ء میں تمام اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے عالمی کپ اٹھایا اور اس کے بعد سے آج تک ہمیشہ عالمی اعزاز کے لیے مضبوط امیدوار کی حیثیت سے کھیلتا ہے۔ خاص طور پر گزشتہ دو عالمی کپ ٹورنامنٹ میں سری لنکا کی کارکردگی بہت نمایاں رہی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ دونوں بار یعنی 2007ء اور 2011ء میں فائنل تک رسائی کے باوجود اعزاز نہ جیت سکا۔ ان مقابلوں میں بالترتیب آسٹریلیا اور بھارت کے ہاتھوں مایوس کن شکستوں کے بعد اب سری لنکا ایک بار پھر فائنل تک پہنچنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتا ہے اور اس بار تاریخ کا دھارا پلٹنے کے لیے تیار ہے۔
سری لنکا کا شمار عالمی کپ 2015ء کی چند متوازن اور تجربہ کار ترین ٹیموں میں ہو رہا ہے۔ مہیلا جے وردھنے، کمار سنگاکارا ، تلکارتنے دلشان اور لاستھ مالنگا جیسے کھلاڑی گزشتہ دو عالمی کپ فائنل مقابلوں میں بھی سری لنکا کا حصہ رہے ہیں اور اب بھی امید کررہے ہوں گے کہ اس مرتبہ، بالآخر 19 سال بعد، عالمی کپ ٹرافی اپنے ملک لے جانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ گزشتہ سال بنگلہ دیش میں منعقدہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں کامیابی سری لنکا کی فائنل مقابلوں میں شکست کے تاثر کو زائل کرچکی ہے اور اس بار جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بعد عالمی کپ کےمضبوط ترین امیدواروں میں شمار ہو رہا ہے۔
طاقت:
سری لنکا کی سب سے بڑی طاقت اس کا تجربہ ہے اور اس میں شاید ہی کوئی ٹیم سری لنکا کا مقابلہ کر سکے۔ سنگاکارا، جے وردھنے اور دلشان کا مجموعی تجربہ ایک ہزار سے زیادہ ون ڈے مقابلوں کا ہے اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی وکٹوں پر ان تینوں کا وسیع تجربہ سری لنکا کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوگا۔ بلے باز کمار سنگاکارا تمام طرز کی کرکٹ میں اپنی بہترین فارم میں ہیں، اور 2014ء میں 51.46 کے اوسط کے ساتھ 1256 رنز کے ساتھ سب سے کامیاب بلے باز رہے ہیں۔
یہ عالمی کپ سری لنکا کی بلے بازی کے ستون سمجھے جانے والے تین مذکورہ بالا کھلاڑیوں کا آخری عالمی کپ بھی ہے۔ یہی بات سری لنکا کو عالمی کپ جیتنے کے لیے اسی طرح تحریک دے سکتی ہے جس طرح 2011ء میں سچن تنڈولکر کے آخری عالمی کپ نے بھارت کو جیتنے کے لیے متحرک کیا تھا۔
اگر سری لنکا کی گیندبازی پر نظر دوڑائی جائے تو ایک فٹ اور بھرپور لے کے ساتھ باؤلنگ کرنے والے لاستھ مالنگا سب سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ وارم اپ مقابلے میں خود کو مکمل فٹ ثابت بھی کر چکے ہیں اور نووان کولاسیکرا اور رنگانا ہیراتھ کے ساتھ ان کی 'مثلث' سری لنکا کے گیندبازی کے حملے کو بہت کاری بنا رہی ہے۔
کمزوری:
اگر سری لنکا کی کوئی کمزوری ہے تو وہ اس کے ابتدائی بلے باز ہیں جہاں سری لنکا کو ابھی تک دلشان کے لیے کوئی اچھا اور مستحکم ساتھی نہیں مل سکا۔ اگرچہ دلشان سری لنکا کو اچھا آغاز فراہم کرتے آئے ہیں لیکن ان کا ساتھ دینے کے لیے دیموتھ کرونارتنے کا حصہ زیادہ نہیں رہا اور اب ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ اس کمزوری پر قابو پانے کے لیے جے وردھنے کو سری لنکا کی اننگز کے آغاز میں اترنا پڑے گا۔ ایک اور نمایاں کھلاڑی دنیش چندیمال بھی ابھی تک اپنے انتخاب کے فیصلے کو درست ثابت نہیں کرپائے۔ سری لنکا کی انتظامیہ انہیں سنگاکارا کی جگہ لینے کے لیے تیار کررہی ہے لیکن وہ اب تک 90 ایک روزہ مقابلوں میں محض 29.73 کے اوسط کے ساتھ رنز بنا پائے ہیں، یعنی ان کے سنگاکارا کی جگہ لینے کے امکانات بہت کم ہیں۔
خاص کھلاڑی:
اس میں کوئی شک نہیں کا لاستھ مالنگا سری لنکا کے سب سے نمایاں کھلاڑي ہیں۔ چاہے شروع کے اوورز ہوں یا اختتامی، دونوں صورتوں میں سری لنکا کا قیمتی سرمایہ مالنگا ہیں اور ان کے پاس میچ کو پلٹنے کی پوری صلاحیت اور قابلیت ہے۔ ستمبر میں سرجری کے بعد سے اب تک وہ کرکٹ سے دور تھے اور واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ سری لنکا انہیں عالمی کپ کے لیے بچا کر رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ مکمل طور پر تروتازہ ہو کر کھیلیں۔
ان کے علاوہ اینجلو میتھیوز کو بھی نظرانداز کرنا آسان نہیں۔ سری لنکن کپتان پچھلے سال ایک ہزار سے زیادہ رنز کا ہندسہ عبور کرنے والے پہلے بلے باز تھے اور اپنے 32 ایک روزہ مقابلوں میں آل راؤنڈر نے نچلے نمبروں پر آتے ہوئے 9 نصف سنچریاں بنائی تھیں۔ وہ گیند کے ساتھ کفایتی بھی رہے اور ساتھ ہی نامور ساتھی کھلاڑیوں کی موجودگی میں ایک مضبوط کپتان کے طور پر ابھرے ہیں۔
چھپا رستم:
تھیسارا پیریرا کی شکل میں سری لنکا کے پاس ایک بہترین آل راؤنڈر موجود ہے جو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی وکٹوں پر بہت مفید ثابت ہوگا۔ پیریرا آخری نمبروں پر جارحانہ بلے بازی اور ساتھ ہی عمدہ فیلڈنگ اور گیند کے ساتھ بیٹسمین کو حیران کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
گزشتہ عالمی کپ میں سری لنکا کی کارکردگی:
پچھلے عالمی کپ میں سری لنکا فائنل تک پہنچا تھا جہاں مہیلا جے وردھنے کی عمدہ سنچری کے باوجود اسے بھارت کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ گروپ مقابلوں میں کمزور حریفوں کو باآسانی شکست دینے کے بعد اسے پاکستان کے ہاتھوں ہارنا پڑا جبکہ آسٹریلیا کے خلاف مقابلہ بارش کی نذر ہوگیا۔ یوں گروپ 'اے' میں دوسرے نمبر پر رہنے کی وجہ سے کوارٹر فائنل میں سری لنکا کا مقابلہ انگلستان سے ہوا جہاں اس نے 'بابائے کرکٹ' کو 10 وکٹوں کی زبردست شکست دی اور پھر نیوزی لینڈ کو پانچ وکٹوں نے ہرا کر فائنل تک پہنچ گیا۔ اس عالمی کپ میں تلکارتنے دلشان 8 مقابلوں میں 500 رنز کے ساتھ ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی تھے۔
سری لنکا کا 15 رکنی دستہ:
اینجلو میتھیوز (کپتان)، تلکارتنے دلشان، کمار سنگاکارا (وکٹ کیپر)، مہیلا جے وردھنے، لاہیرو تھریمانے، دنیش چندیمال، دیموتھ کرونارتنے، جیون مینڈس، تھیسارا پیریرا، سورنگا لکمل، لاستھ مالنگا، دھمیکا پرساد، نووان کولاسیکرا، رنگانا ہیراتھ، سچیتھرا سینانائیکے
عالمی کپ میں سری لنکا کے گروپ مقابلے
بتاریخ | بمقام | |||
---|---|---|---|---|
14 فروری | سری لنکا | بمقابلہ | نیوزی لینڈ | کرائسٹ چرچ |
22 فروری | سری لنکا | بمقابلہ | افغانستان | ڈنیڈن |
26 فروری | سری لنکا | بمقابلہ | بنگلہ دیش | ملبورن |
یکم مارچ | سری لنکا | بمقابلہ | انگلستان | ویلنگٹن |
8 مارچ | سری لنکا | بمقابلہ | آسٹریلیا | سڈنی |
11 مارچ | سری لنکا | بمقابلہ | اسکاٹ لینڈ | ہوبارٹ |