عالمی کپ کے 30 جادوئی لمحات: پاکستان عرش سے فرش پر

0 1,034

جب پاکستان نے عالمی کپ 1999ء کے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو 9 وکٹوں کی بدترین شکست سے دوچار کیا تھا تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب دنیا کی کوئی کرکٹ قوت پاکستان اور عالمی کپ کے درمیان حائل نہیں ہو سکتی۔ آسٹریلیا، جو گروپ مرحلے میں پاکستان سے شکست کھا چکا تھا، گرتا پڑتا اور بمشکل سیمی فائنل ٹائی کرکے فائنل تک پہنچا تھا۔ پاکستان کے کھلاڑیوں کا تو اندازہ نہیں لیکن شائقین کو یقین کامل تھا کہ پاکستان باآسانی آسٹریلیا کو ہرائے گا، کیونکہ وہ گروپ مرحلے میں اسے شکست دے چکا ہے۔ لیکن 20 جون کی شام لارڈز کے تاریخی میدان پر جو کچھ ہوا، وہ پاکستان کی کرکٹ تاریخ کا ایک مایوس کن دن تھا اور دنیائے کرکٹ پر آسٹریلیا کی بالادستی کے ایک طویل عہد کے آغاز کا اعلان بھی۔

شرم سے جھکا ہوا یہ سر عالمی کپ 1999ء کے فائنل میں پاکستان کی کارکردگی کو ظاہر کررہا ہے (تصویر: Getty Images)
شرم سے جھکا ہوا یہ سر عالمی کپ 1999ء کے فائنل میں پاکستان کی کارکردگی کو ظاہر کررہا ہے (تصویر: Getty Images)

جب وسیم اکرم نے ٹاس جیتا اور پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا تو میدان میں موجود ہزاروں پاکستانی تماشائی جھوم اٹھے۔ چند گھنٹوں بعد بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی تیار کردہ نئی ٹرافی پر گرفت انہیں مضبوط نظر آرہی تھی لیکن کچھ ہی دیر میں یہ خواب چکناچور ہونے والا تھا۔ سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کا کام تمام کرنے والے شین وارن اپنے کیریئر کی ایک اور یادگار کارکردگی دکھائی اور پاکستان کو اکھاڑے سے باہر پھینک دیا۔

پاکستان کے جن افتتاحی بلے بازوں، سعید انور اور وجاہت اللہ واسطی، نے سیمی فائنل میں 194 رنز کی ریکارڈ شراکت داری قائم کی تھی، فائنل جیسے اہم مقابلے میں پانچ اوورز بھی نہ ٹک پائے۔ مارک واہ کے شاندار کیچ نے وجاہت کی اننگز کا خاتمہ کیا اور اگلے اوور میں سعید انور ڈیمین فلیمنگ کی گیند کو اپنی ہی وکٹوں پر کھیل بیٹھے۔ 21 رنز پر دو وکٹیں گرنے کے بعد عبد الرزاق اور اعجاز احمد نے پاکستان کی سب سے بڑی شراکت داری قائم کی جس نے 47 رنز کا اضافہ کیا۔ اسکور 68 رنز تک پہنچا تو دم میں دم آیا لیکن توقعات کا ہوائی محل زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ عبد الرزاق 17 رنز بنانے کے بعد میدان سے واپس آئے تور کچھ ہی دیر میں شین وارن قہر بن کر ٹوٹ پڑے۔

وارن نے جادوئی باؤلنگ کرتے ہوئے اعجاز احمد، معین خان، شاہد آفریدی اور وسیم اکرم کی وکٹیں حاصل کیں اور اس دوران دوسرے کنارے سے پال رائفل نے انضمام الحق اور ٹام موڈی نے اظہر محمود کی اننگز کا خاتمہ کردیا اور کچھ ہی دیر میں پاکستان کی اننگز محض 39 ویں اوور میں صرف اور صرف 132 رنز پر ختم ہوگئی۔ شین وارن نے 33 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کیں، جبکہ دو، دو کھلاڑیوں کو گلین میک گرا اور ٹام موڈی نے آؤٹ کیا۔

اپنے وقت کی بہترین باؤلنگ لائن ہونے کے باوجودصرف 133 رنز کا دفاع تقریباً ناممکنات میں سے تھا اور جو موہوم سی امید باقی بھی تھی وہ ایڈم گلکرسٹ اور مارک واہ کی پہلی وکٹ پر 75 رنز کی دھواں دار شراکت داری نے پوری کردی۔ گلکرسٹ نے صرف 33 گیندوں پر نصف سنچری مکمل کی اور آسٹریلیا نے 21 ویں اوور کی پہلی گیند پر ہی ہدف کو جا لیا۔ 8 وکٹوں کی شاندار کامیابی کے ساتھ آسٹریلیا تاریخ میں دوسری بار عالمی چیمپئن بنا۔ گروپ مرحلے میں لب گور پہنچنے کے بعد ناقابل یقین فتوحات، پھر سیمی فائنل میں مقابلہ ٹائی ہوجانے کے باوجود فائنل تک رسائی حاصل کرنے والے آسٹریلیا کے بارے میں کسی نے تصور ہی نہ کیا تھا کہ وہ عالمی کپ اٹھائے گا لیکن لارڈز کی تاریخی گیلری میں خوشی سے تمتماتے چہرے آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کے ہی تھے جبکہ پاکستانیوں کے لیے یہ مقام شرم تھا۔

سب سے مایوس کن بات ان پاکستانی تماشائیوں کے لیے تھی جنہوں نے انتہائی مہنگے ٹکٹ خریدے تھے، صرف اس لیے کہ پاکستان کو عالمی کپ اٹھانے کے تاریخی لمحات اپنی آنکھوں سے دیکھیں، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ !

آسٹریلیا کو اس جیت سے اتنا حوصلہ ملا کہ آئندہ دونوں عالمی کپ اس نے بغیر کوئی مقابلہ ہارے جیتے جبکہ پاکستان ان دونوں ٹورنامنٹس میں پہلے ہی مرحلے سے باہر ہوا۔