افغان کرکٹ، آغازِ سفر، سنگ ہائے میل اور منزل
اگر عالمی کرکٹ کے منظرنامے پر آنے والی کسی ایک ٹیم کی کہانی آپ کو تحریک دےسکتی ہے، متاثر کرسکتی ہے اورکچھ نہ ہوتے ہوئے بھی کچھ کر دکھانے کا عزم دے سکتی ہے، تو وہ افغانستان کی داستان ہے۔ایک ایسا ملک جو دہائیوں سے حالت جنگ میں ہے، جہاں امن و امان ندارد، قانون غائب اور خوشی کے لمحات مفقود ہوں، وہاں افغان عوام کے چہروں پر صرف ایک چیز مسکراہٹ لاسکی ہے، وہ ہے کرکٹ!
افغانستان کی کرکٹ کی دنیا میں جلوہ گر ہونے کی داستان جتنی حوصلہ افزاء ہے، اتنی ہی حیران کن بھی ہے۔ شاید ہی تاریخ میں کبھی کوئی کرکٹ ٹیم اس تیزی کے ساتھ منظرعام پر آئی ہو۔ 2004ء میں مقامی ایشیائی ٹورنامنٹس سے آغاز لینے والا افغانستان آج محض ایک دہائی میں اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اس کی ٹیم عالمی کپ 2015ء کھیل رہی ہے۔
افغان کرکٹ کا یہ سفر ظاہر کرتا ہے کہ جہاں فتوحات ہوں گی، وہاں شکستیں بھی ملیں گے، کسی ایک مقابلے میں حوصلہ بڑھے گا تو دوسرے میں ٹوٹے گا بھی۔ جیت کس طرح حوصلہ دیتی ہے، حد سے زیادہ خوداعتمادی کس طرح شکست کی راہ ہموار کرتی ہے، پلٹ کر جھپٹا کیسے جاتا ہے اور ہر نئے روز تجربات سے کیسے سیکھا جاتا ہے؟ افغانستان میں کرکٹ ایک دیوانے کا خواب تھا، جو شرمندہ تعبیر ہوچکا ہے، صرف چند سالوں میں۔
لیکن خاکستر سے یہ چنگاری اٹھی کیسے؟ شعلہ کیسے بنی؟ اس بارے میں جاننے کے لیے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی ایک دستاویزی فلم "Out of the Ashes" بہترین ذریعہ ہے۔ 2010ء میں بننے والی یہ دستاویزی فلم ٹم آلبون اور لوسی مارٹنز کی ہدایات اور ریچل ویکسلر کی پیشکش ہے اور بلاشبہ ایسی دستاویزی فلم ہے جس کو دیکھنے کے بعد محسوس کریں گے کہ آپ نے ڈیڑھ گھنٹہ ضائع نہیں کیا۔