زخمی شیروں کا بڑا شکار، پاکستان کے ہاتھوں جنوبی افریقہ کو شکست

3 1,053

آکلینڈ کے باسی بڑے خوش قسمت ہیں، انہیں عالمی کپ کے آغاز کے بعد ابتدائی دو ہفتے تک تو کوئی مقابلہ دیکھنے کو نہیں ملا لیکن جیسے ہی ٹیموں نے ایڈن پارک کا رخ کیا تو ہمیں عالمی کپ کے دو بہترین مقابلے دیکھنے کو ملے۔ پہلا مقابلہ سنسنی خیز کے ان مراحل تک پہنچا، جو دہائیوں میں جاکر دیکھنے کو ملتے ہیں اور نتیجہ بھی ایسا جو شہر کے مکینوں کو بہت پسند آیا ہوگا، یعنی نیوزی لینڈ نے آسٹریلیا کو ایک وکٹ سے شکست دے دی۔ لیکن ٹھیک ایک ہفتے بعد اس میدان پر اگلا مقابلہ بھی اعصاب کا زبردست امتحان ثابت ہوا جہاں پاکستان کے گیندبازوں نے ناممکن کو ممکن کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کو شکست دے دی۔

عالمی کپ کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ پاکستان نے جنوبی افریقہ کو ہرایا ہو۔ 1992ء میں بارش نے پاکستان کو سخت نقصان پہنچایا اور شکست مقدر ٹھیری۔ 1996ء میں اپنے مضبوط قلعے میں کراچی میں بھی میزبان کو فتح نہ ملی، یہاں تک کہ 1999ء میں 221 رنز کا دفاع کرتے ہوئے 58 رنز پر جنوبی افریقہ کے پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کے بعد بھی پاکستان مقابلہ نہ جیت سکا۔ اب 15 سال کے طویل عرصے کے بعد عالمی کپ میں پاکستان کا مقابلہ جنوبی افریقہ سے ہوا، اس حالت میں کہ پاکستان گروپ کی دوسری قابل ذکر ٹیموں بھارت اور ویسٹ انڈیز دونوں سے بری طرح شکست کھا چکا تھا اور زمبابوے اور عرب امارات کی فتوحات کے سہارے پر زندہ تھا۔ اب اسے عالمی کپ میں اپنے امکانات کو زندہ اور روشن رکھنے کے لیے لازمی جیت کی ضرورت تھی۔

ایک ایسی وکٹ پر جہاں پچھلے مقابلے میں آسٹریلیا صرف 151 رنز پر ڈھیر ہوگیا تھا، پاکستان کو بادل نخواستہ پہلے بلے بازی کرنا پڑی۔ زخمی حارث سہیل کی جگہ یونس خان مڈل آرڈر میں شامل کیے گئے جبکہ پے در پے ناکامی سہنے والے ناصر جمشید کی جگہ 'پبلک کے بے حد اصرار پر' سرفراز احمد کو شامل کیا گیا گیا جنہیں چھوٹتے ہی عالمی کپ میں پہلا مقابلہ بحیثیت اوپنر کھلایا گیا حالانکہ ناصر جمشید سے پہلے یہ ذمہ داری یونس خان کے حوالے تھی۔ بہرحال، سرفراز آئے، انہوں نے دیکھا اور فتح کرلیا۔ جب احمد شہزاد کی اننگز ڈیل اسٹین کے ایک ناقابل یقین کیچ کے ہاتھوں ختم ہوئی تو یہ سرفراز احمد ہی تھے جن کی دھواں دار بلے بازی نے پاکستان کو صرف ایک وکٹ کے ساتھ 91 رنز تک پہنچا دیا ۔ خاص طور پر ژاں-پال دومنی کو ایک ہی اوور میں لگائے گئے تین چھکے قابل دید تھے لیکن یہی شاٹ انہیں حد سے زیادہ خود اعتمادی دے گئے جس کا انہیں نقصان ہوا۔ اگلے ہی اوور میں وہ غیر ضروری طور پر دوسرا رن دوڑے، اس حقیقت کو بھولتے ہوئے کہ یہ جنوبی افریقہ کی فیلڈنگ ہے۔ اسکوائر لیگ پر کھڑے ڈیوڈ ملر بجلی کی تیزی سے گیند کی جانب لپکے، اسے تھاما اور سرعت سے ایک ایسا تھرو پھینکا جو سرفراز کی اننگز کے خاتمے کے لیے کافی تھا۔ ایک لمبی جست بھی سرفراز کو نہ بچا سکی اور وہ 49 گیندوں پر 49 رنز کے ساتھ انتہائی مایوسی کے عالم میں میدان سے واپس آئے۔

اب یونس خان کی باری تھی کہ وہ مصباح الحق کے ساتھ مل کر اننگز کو سنبھالیں اور خود کو ثابت بھی کریں لیکن ان کی کہانی 44 گیندوں پر 37 رنز سے آگے نہ بڑھ سکی اور پاکستان 132 رنز پر اپنی تیسری وکٹ سے محروم ہوگیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ پرانی داستان ہے یعنی مصباح ایک اینڈ پر "کلّا رہ گیا!" اور دوسرے کنارے سے کوئی کھلاڑی ان کا ساتھ دینے کو تیار نہ دکھائی دیا بلکہ ایسا لگتا تھا کہ یہ اہلیت، صلاحیت اور ارادہ ہی کسی میں نہیں پایا جاتا۔ پہلے صہیب مقصود گئے، پھر عمر اکمل اور ان کے بعد آخری "مستند" بلے باز شاہد آفریدی، جنہوں نے ڈیل اسٹین کو ایک چھکا لگایا لیکن اسی اوور میں دوسرے چھکے کی بھی "حاجت" محسوس کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اننگز 22 رنز پر ہی تمام ہوگئی۔ بارش کے بعد جب مقابلہ 47 اوورز تک محدود کردیا گیا تو پاکستان آخری پانچ وکٹیں صرف 10 رنز کے اضافے سے کھو بیٹھا۔ اس سلسلے کا آغاز شاہد آفریدی کی وکٹ سے ہوا اور اختتام 47 ویں اوور میں سہیل خان کے آؤٹ ہونے پر۔ مصباح نے ہمیشہ کی طرح 86 گیندوں پر 56 رنز کی ایک سست نصف سنچری بنائی، جو بہرحال وقت کا تقاضہ تھی۔ لیکن ایسے مرحلے پر جب پاکستان باآسانی 250 سے 260 رنز بناتا دکھائی دے رہا تھا، صرف 222 رنز کسی کو نہیں جچ رہے تھے۔

جنوبی افریقہ کو ڈک ورتھ لوئس طریقے کے مطابق 47 اوورز میں 232 رنز کا ہدف ملا اور پہلے ہی اوور میں کوئنٹن ڈی کوک کی وکٹ گنوانے کے بعد وہ اس وقت ہدف حاصل کرنے کے لیے بہترین پوزیشن پر تھا جب تک ہاشم آملہ اور فف دو پلیسی کی شراکت داری جاری تھی۔ دونوں بلے باز محض دسویں اوور میں ہی اسکور کو 67 رنز تک پہنچا چکے تھے جب پاکستانی گیندباز مقابلے پر غالب آ گئے۔ پہلے راحت علی نے فف کو وکٹوں کے پیچھے آؤٹ کرایا اور اگلے ہی اوور میں وہاب ریاض کی گیند پر سرفراز احمد نے ہاشم آملہ کا ایک ناقابل یقین کیچ لیا۔ گیند نے ہاشم کے بلّے کا بیرونی کنارہ لیا تھا اور سرفراز تک پہنچتے پہنچتے کافی غوطہ مار چکی تھی لیکن سرفراز نے جست لگا کر زمین سے محض ایک دو انچ کے فاصلے سے اسے پکڑا اور یوں ہاشم کی 38 رنز کی اننگز تمام ہوئی۔ پھر پاکستانی گیندباز مقابلے پر چھا گئے۔ وہاب نے ریلی روسو کو شارٹ گیند پر ہک کھلا کر پھانسا، جو فائن لیگ پر سہیل خان کو کیچ دے گئے اور یہ کہانی یہاں رکی نہیں۔ جیسے ہی جنوبی افریقہ نے بیسویں اوور میں تہرا ہندسہ عبور کیا ژاں-پال دومنی کی صورت میں چھٹی وکٹ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔

اب ایک اینڈ مکمل طور پر غیر محفوظ تھا، جہاں ڈیل اسٹین کھڑے تھے جبکہ دوسرے کنارے پر جنوبی افریقہ کی امیدوں کے محور کپتان ابراہم ڈی ولیئرز موجود تھے۔ جب تک وہ کھڑے رہے، پاکستان کے امکانات پچاس فیصد تک بھی نہیں تھے، ایک غیر یقینی کی کیفیت تھی جو کم از کم شائقین پر تو چھائی ہوئی تھی۔ ڈی ولیئرز نے وہاب ریاض کو ایک ہی اوور میں دو چھکے اور ایک چوکا اور پھر شاہد آفریدی کو مسلسل دو چھکے لگائے، یعنی پاکستان کے لیے معاملہ اتنا آسان نہیں تھا۔ یہاں تک کہ بیٹنگ پاور پلے میں پاکستان نے ابتدائی دو اوورز میں ہی 23 رنز کھا لیے۔ اب جنوبی افریقہ صرف 32 رنز کے فاصلے پر تھا اور گیند سہیل خان کے ہاتھوں میں تھی جو دیگر گیندبازوں کے مقابلے میں آج ناکام رہے تھے لیکن انہوں نے دن کا سب سے بڑا شکار کیا۔ 33 ویں اوور کی دوسری گیند کو ڈی ولیئرز میدان بدر کرنا چاہتے تھے لیکن سہیل خان کی گیند کے اچھال نے انہیں دھوکا دیا اور بلے کا اوپری کنارہ لیتی ہوئی وکٹ کیپر کے ہاتھوں میں محفوظ ہوگئی جو دن میں ان کا پانچواں کیچ تھا۔ وہیں پر مقابلہ پاکستان کی جیب میں آگیا۔ ویسے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا کیونکہ محض دو رنز بعد ہی جنوبی افریقہ کی آخری وکٹ بھی گرگئی اور پاکستان مقابلہ 29 رنز سے جیت گیا۔

نتیجہ ناقابل یقین تھا، اتنا ہی جتنا کہ پاکستان کی کارکردگی ہے لیکن ساتھ ہی جنوبی افریقہ کی بڑے مقابلوں میں اعصاب پر قابو پانے کی اہلیت پر ایک مرتبہ پھر سوال بھی اٹھا گیا ہے۔ آخری دونوں مقابلوں میں 400 سے زیادہ رنز بنانے والا جنوبی افریقہ صرف 232 رنز کا ہدف حاصل نہ کرسکا اور اہم مقابلے میں شکست کھا گیا۔ البتہ اس کے کوارٹر فائنل کے امکانات کو زیادہ ٹھیس نہیں پہنچی ہے کیونکہ اب اس کا آخری مقابلہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہے جہاں کامیابی اسے باآسانی کوارٹر فائنل میں پہنچا دے گی۔

پاکستان کے گیندبازوں نے تو آج سب کو لاجواب کردیا۔ محمد عرفان ہاشم آملہ اور دومنی کی قیمتی وکٹوں سمیت کل تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ اتنی ہی وکٹیں راحت علی اور وہاب ریاض نے بھی حاصل کیں لیکن سب سے بڑی وکٹ سہیل خان کو ملی۔ سرفراز احمد کو شاندار بلے بازی اور وکٹو ں کے پیچھے ریکارڈ 6 کیچز پکڑنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

اب پاکستان گروپ 'بی' میں 6 پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ جنوبی افریقہ اور آئرلینڈ کے پوائنٹس کی تعداد بھی اتنی ہی ہے لیکن نیٹ رن ریٹ کے فرق کی وجہ سے جنوبی افریقہ دوسرے، پاکستان تیسرے اور آئرلینڈ چوتھے درجےپر فائز ہے۔ گروپ میں تمام ہی ٹیموں کے مقابلے ابھی باقی ہیں ہوسکتا ہے کہ درجات میں کچھ تبدیلیاں بھی واقع ہوں لیکن فی الحال سب کی نظریں پاکستان کے اگلے مقابلے پر ہوں گی جو 15 مارچ کو ایڈیلیڈ میں آئرلینڈ کے خلاف ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ پری-کوارٹر فائنل کا درجہ اختیار کرجائے۔

جنوبی افریقہ بمقابلہ پاکستان

7 مارچ 2015ء - انتیسواں مقابلہ

بمقام: ایڈن پارک،آکلینڈ، نیوزی لینڈ

نتیجہ: پاکستان 29 رنز سے جیت گیا (بمطابق ڈک ورتھ-لوئس طریقہ)

میچ کے بہترین کھلاڑی: سرفراز احمد

 پاکستان رنز گیندیں چوکے چھکے اسٹرائیک ریٹ
سرفراز احمد رن آؤٹ (طاہر) 49 49 5 3 100.0
احمد شہزاد کیچ اسٹین بولڈ ایبٹ 18 30 4 0 60.0
یونس خان کیچ روسو بولڈ ڈی ولیئرز 37 44 4 0 84.09
مصباح الحق کیچ مورکل بولڈ اسٹین 56 86 4 0 65.12
صہیب مقصود کیچ روسو بولڈ ایبٹ 8 16 1 0 50.0
عمر اکمل کیچ ڈی ولیئرز بولڈ مورکل 13 20 2 0 65.0
شاہد آفریدی کیچ دومنی بولڈ اسٹین 22 15 1 2 146.67
وہاب ریاض ایل بی ڈبلیو طاہر 0 1 0 0 0.0
سہیل خان کیچ دومنی بولڈ مورکل 3 11 0 0 27.27
راحت علی کیچ طاہر بولڈ اسٹین 1 6 0 0 16.67
محمد عرفان ناٹ آؤٹ 1 3 0 0 33.33
فاضل رنز ل ب 7، و 6، ن ب 1 14
کل رنز 46.4 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر 222
گیندبازی (جنوبی افریقہ) اوورز میڈنز رنز وکٹیں نو-بالز وائیڈز اسٹرائیک ریٹ
ڈیل اسٹین 10.0 3 30 3 0 1 3.0
کائل ایبٹ 9.0 0 45 2 0 1 5.0
مورنے مورکل 9.4 0 25 2 1 0 2.58
عمران طاہر 9.0 1 38 1 0 0 4.22
ابراہم ڈی ولیئرز 6.0 0 43 1 0 1 7.16
ژاں-پال دومنی 3.0 0 34 0 0 2 11.33
 جنوبی افریقہ (ہدف: 232 رنز، 47 اوورز) رنز گیندیں چوکے چھکے اسٹرائیک ریٹ
کوئنٹن ڈی کوک کیچ سرفراز بولڈ عرفان 0 2 0 0 0.0
ہاشم آملہ کیچ سرفراز بولڈ وہاب ریاض 38 27 9 0 140.74
فف دو پلیسی کیچ سرفراز بولڈ راحت 27 29 3 1 93.1
ریلی روسو کیچ سہیل بولڈ وہاب ریاض 6 9 1 0 66.67
ابراہم ڈی ولیئرز کیچ سرفراز بولڈ سہیل 77 58 7 5 132.76
ڈیوڈ ملر ایل بی ڈبلیو راحت 0 13 0 0 0.0
ژاں-پال دومنی کیچ وہاب ریاض بولڈ عرفان 12 13 2 0 92.31
ڈیل اسٹین کیچ سرفراز بولڈ عرفان 16 17 3 0 94.12
کائل ایبٹ کیچ سہیل بولڈ راحت 12 19 2 0 63.16
مورنے مورکل ناٹ آؤٹ 6 8 1 0 75.0
عمران طاہر کیچ سرفراز بولڈ وہاب ریاض 0 6 0 0 0.0
فاضل رنز ل ب 1، و 7 8
کل رنز 33.3 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر 202
گیندبازی (جنوبی افریقہ) اوورز میڈنز رنز وکٹیں نو-بالز وائیڈز اکانمی ریٹ
محمد عرفان 8.0 0 52 3 0 0 6.5
سہیل خان 5.0 0 36 1 0 4 7.2
راحت علی 8.0 1 40 3 0 1 5.0
شاہد آفریدی 5.0 0 28 0 0 0 5.6
وہاب ریاض 7.3 2 45 3 0 2 6.0