نیا عالمی چیمپئن آسٹریلیا، ایک نئے عہد کا آغاز
دنیائے کرکٹ میں تقریباً ڈیڑھ ماہ کی گہماگہمی بالآخر اپنے اختتام کو پہنچی اور’’حق بہ حقدار رسید‘‘، آسٹریلیا نے پانچویں بار کرکٹ کے سب سے بڑا اعزاز حاصل کرلیا۔ ملبورن کرکٹ گراؤنڈ پر کھیلا گیا فائنل توقعات کے برخلاف بالکل یکطرفہ ثابت ہوا اور یوں آسٹریلیا نے بڑے مقابلوں کو باآسانی جیتنے کی اپنی روایت قائم رکھی۔ نیوزی لینڈ، جو پورے عالمی کپ کے دوران ناقابل تسخیر اور چھایا ہوا نظر آ رہا تھا، آخری پڑاؤ پر منتشر دکھائی دیا اور اوسان خطا ہوجانے کے بعد شکست سے دوچار ہوا۔ حواس باختگی کی ایک جھلک مقابلے کے پہلے ہی اوور میں نظر آ گئی تھی جب کپتان برینڈن میک کولم حریف تیز گیندباز مچل اسٹارک کی برق رفتار گیندوں کی تاب نہ لا سکے اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ انداز میں آؤٹ ہو کر چلتے بنے۔ اپنے قائد کو صفر پر آؤٹ ہوتے دیکھنا نیوزی لینڈ کے لیے کسی’’سانحے‘‘ سے کم نہیں تھا۔ آسٹریلوی گیندبازوں کی جارح مزاجی کا زور توڑنے اور فائنل میں غلبے کے ساتھ آغاز کرنے کے لیے میک کولم کا کریز پر رہنا بے حد ضروری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے ہی اوور میں ٹیم سخت دباؤ کا شکار ہوئی اور پھر گرانٹ ایلیٹ اور روس ٹیلر کے علاوہ کسی کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں دکھائی دی۔
ویسے 183 رنز کا ہدف دیکھ کر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلے گئے اسی عالمی کپ کا گروپ مقابلہ ضرور ذہنوں میں تازہ ہوا ہوگا کہ جہاں نیوزی لینڈ نے اعصاب شکن معرکے کے بعد آسٹریلیا کو محض ایک وکٹ سے زیر کیا تھا۔ تھوڑی دیر کے لیے یہ تصور بڑا خوش کن بھی تھا کیونکہ نصف مرحلہ مکمل ہونے تک تو مقابلہ انتہائی یکطرفہ تھا اور میدان میں موجود 93 ہزار تماشائیوں کے علاوہ اپنی اسکرینوں پر نظریں جمائے کروڑوں شائقین بھی ایک اچھے مقابلے کی امید تھی لیکن یہ تاثر کچھ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا اور آسٹریلیا نے عالمی کپ فائنل میں حریفوں کو بری طرح چت کرنے کی روایت برقرار رکھتے ہوئے معرکہ سر کرلیا۔
نیوزی لینڈ نے اس عالمی کپ میں تمام مقابلے ضرور جیتے، لیکن کاغذ پر آسٹریلیا پوری طرح غالب تھا۔ آسٹریلیا-نیوزی لینڈ باہم مقابلوں کی تاریخ چیخ چیخ کر آسٹریلیا کی فتوحات کا اعلان کررہی تھی۔ لیکن نیوزی لینڈ کے اس شاندار، حیران کن اور بے داغ سفر کا اختتام اس مایوس کن انداز میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فائنل سے قبل کرکٹ ماہرین بھی تجزیے میں بہت احتیاط سے کام لے رہے تھے۔ بالخصوص سیمی فائنل میں ’’کیویز ‘‘ نے جس دیدہ دلیری اور جانبازی کے ساتھ جنوبی افریقہ کو زیر کیا تھا، اسے دیکھ کر یہ گمان کرنا بالکل غلط نہ تھا کہ عالمی کپ 2015ء کا فائنل سنسنی خیز اور دلچسپ ہو گا۔ لیکن فائنل جیسے بڑے مقابلوں کے لیے آسٹریلیا وہ ’’لوہے کا چنا‘‘ ہے جسے چبایا نہیں جاسکتا۔
گروپ مرحلے میں آسٹریلیا کو شکست دینا اور پھر جنوبی افریقہ جیسے مضبوط حریف کو عالمی کپ سے بے دخل کرنے کے بعد نیوزی لینڈ بہت اونچی پرواز اڑ رہا تھا۔ یہاں تک کہ برصغیر کے شائقین کرکٹ کی بھی خواہش تھی کہ نیوزی لینڈ آسٹریلیا کو پانچویں بار عالمی چیمپئن بننے سے روکے اور اس بار یہ خوبصورت ٹرافی کسی نئے ملک کے پاس جائے۔ لیکن کرکٹ ایسا کھیل ہے جہاں ’’لمحوں کی خطا‘‘، ’’صدیوں کی سزا ‘‘ بن جاتی ہے۔ پورے عالمی کپ ٹورنامنٹ میں نیوزی لینڈ کی شاندار کارکردگی ایک طرف اور آخری اور اہم ترین مقابلے کی ہزیمت دوسری طرف، کیونکہ یہی ایک شکست انہیں اتنے بڑے اعزاز سے محروم کرگئی ہے۔
آج کے فائنل سے ثابت کیا ہے کہ چیمپئن کہلانے کا حقدار اصل میں وہی ہے جو آغاز سے انجام تک استقلال، دلیری اور جرات مندی دکھائے، اور یہ صرف اور صرف آسٹریلیا نے دکھایا۔ اسے ایک مقابلے میں شکست بھی ہوئی، اس کا بنگلہ دیش کے خلاف ایک آسان مقابلہ بارش کی نذر بھی ہوا لیکن ٹیم نے ہمت نہیں ہاری اور ناک-آؤٹ میں پاکستان اور بھارت جیسے مضبوط حریفوں کو شکست دے کر فائنل تک پہنچا اور وہ حاصل کیا، جس کی خواہش پورے آسٹریلیا کے دل میں تھی۔
1999ء میں آسٹریلیا کی دنیائے کرکٹ پر جس اجارہ داری کا آغاز ہوا تھا، وہ 2011ء میں ختم ہوتی محسوس ہو رہی تھی لیکن مائیکل کلارک اور جارج بیلی کی زیر قیادت آسٹریلیا نے ایک مرتبہ پھر سر اٹھایا اور اب نہ صرف عالمی درجہ بندی میں سرفہرست مقام پر قابض ہے بلکہ عالمی چیمپئن بھی ہے۔ اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اسٹیو واہ، گلین میک گرا اور شین وارن کے دور والا آسٹریلیا ایک مرتبہ پھر زندہ ہو چکا ہے اور یہی وہ عہد ہوگا جب دنیائے کرکٹ کی بڑی ٹیمیں آسٹریلیا کو شکست دے کر فخر محسوس کریں گی۔
رہ گیا نیوزی لینڈ، وہ بس منزل کے قریب پہنچ کر دم توڑ گیا۔ عالمی کپ جیتنے کا سپنا ایک ’’دیوانے کا خواب‘‘ ہی رہا۔ بہت گہرے زخم لگے ہیں، جن کے بھرنے کے لیے مرہم بھی چار سال بعد ہی ملے گا۔